سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) محمد بن سلمان سعودی اشرافیہ کے مبینہ بدعنوان اشخاص کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے اپنے اثاثے ظاہر نہیں کیے گئے۔ مالی بدعنوانی کے خلاف یہ مہم ان کے عہدے کو مزید مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، سعودی بادشاہت کی طاقتور ترین شخصیت ہیں اور وہ عموماً ایم بی ایس کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس ہفتے ایک مرتبہ پھر شاہی خاندان کی اعلیٰ عہدوں پر متعین دو شخصیات کو مالی بدعنوانی کے الزام میں برطرف کردیا۔
ان میں ایک لیفٹیننٹ جنرل فہد بن ترکی بن عبد العزیز، جو کہ یمن میں لڑنے والی سعودی فوجی اتحادی فورسز کے کمانڈر اور ایک شہزادے بھی ہیں۔ دوسرے ان کے بیٹے، شہزادہ عبد العزیز بن فہد بن ترکی تھے، جو سعودی عرب کے شمال مغرب میں واقع الجوف صوبے کا نائب گورنر تھے۔
ایم بی ایس نے برطرفی کی ہدایات سعودی اینٹی کرپشن اتھارٹی ’نزاھة‘ کو سونپ دیں۔ سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی نے منگل کو بتایا کہ اس ادارے نے ’وزارت دفاع میں مشکوک مالی معاملات‘ کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
محمد بن سلمان نے سن 2017 میں ولی عہد کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی کرپشن کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم شروع کردی تھی۔
نیو یارک ٹائمز کے صحافی بین ہوبارڈ کی جانب سے تحریر کردہ محمد بن سلمان کی حالیہ سوانح حیات کے مطابق، شاہی خاندان کے افراد سعودی بینکوں سے واپس ادائیگی کے بغیر ہی قرضے لیتے تھے اور سرمایہ کاروں کے مشیر کے طور پر کام کرنے والے شہزادے اندرونی معلومات کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔
نومبر 2017ء میں ایم بی ایس نے ایک بڑی کارروائی میں سابقہ طاقتور اشرافیہ کے لگ بھگ 350 ممبروں کو گرفتار کیا۔ بعد ازاں انہیں ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں قید کردیا گیا۔
شہزادے کی پالیسی نے سعودی عرب کے رتبہ کو بہتر بنانے میں کچھ حد تک کردار ادا کیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2019ء میں سعودی عرب چھ درجے بڑھ کر 180 ممالک کی فہرست میں51ویں نمبر پر آگیا۔ اس انڈیکس میں سعودی عرب اٹلی، روانڈا اور ملائشیا جیسے ملکوں کے برابر پہنچ گیا۔
محمد بن سلمان کی کرپشن کے خلاف مہم میں تضادات ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے صحافی بین ہوبارڈ کے مطابق گرفتار کیے جانے والوں کا انتخاب متنازعہ ہے کیونکہ حراست میں لیے گئے ان افراد کی کمپنیوں میں ایم بی ایس خود سرمایہ کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
بیرون ملک ناقدین خیال کرتے ہیں کہ ولی عہد شہزادہ کے اپنے مالی معاملات میں بہت کم شفافیت ہے۔ مثال کے طور پر ان کے پاس 500 ملین ڈالر کی عالیشان بوٹ خریدنے، پیرس کے قریب 300 ملین ڈالر کا Château Louis XIV محل خریدنے اور 450 ملین ڈالر کی لیونارڈو ڈا ونچی کی پینٹنگ خریدنے کی رقم کے ذرائع کیا ہیں؟
سعودی ولی عہد کی انسداد کرپشن کی اس مہم کے عمل میں یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ ایم بی ایس کسی بھی سیاسی حریف کو برداشت نہیں کریں گے کیونکہ ان کو خوف ہے کہ یہ حریف کسی بھی ممکنہ غلطی کا فائدہ اٹھا کر ان سے اقتدار چھیننے کی سازش کر سکتے ہیں۔
ایم بی ایس کی مالی بدعنوانی کے ساتھ ساتھ ممکنہ حریفوں کے خلاف بھی لڑائی جاری ہے۔ اس سال مارچ میں ایم بی ایس نے سعودی حکام کو تقریباﹰ 300 عہدیداروں کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی تھی، جن میں متعدد اعلی درجے کے شہزادے بھی شامل ہیں جن پر سنگین غداری کا الزام ہے۔ ان میں بادشاہ کا چھوٹا اور پیارا بھائی شہزادہ احمد بن عبد العزیز، اور انسداد دہشت گردی کے سرکردہ پرنس محمد بن نائف بھی شامل تھے۔
اگر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مستقبل میں اپنے والد بادشاہ سلمان کے جانشین بنتے ہیں، تو وہ سعود خاندان کی ’نئی نسل‘ میں سے پہلے ریاستی سربراہ ہونگے۔ موجودہ بادشاہ اور اس کے سابقہ ممکنہ جانشین سعودی سلطنت کے بانی عبد العزیز ابن آل سعود کے بیٹے تھے۔ ایم بی ایس تخت نشین ہونے والے آل سعود کے پہلے پوتے ہونگے جو کہ ایک انتہائی علامتی اور سیاسی جیت ہے۔
لیکن، اس کا الحاق قطعی یقینی نہیں ہے۔ چونکہ ولی عہد شہزادے نے اپنے چند سالوں میں بہت سے دشمن بنائے ہیں، لہذا اسے محتاط رہنا چاہیے کہ وہ ایسی غلطیاں نہ کریں جس سے اس کے عزائم کو نقصان پہنچے۔
حریفوں کے خلاف طاقت کو مستحکم کرنے سے ایم بی ایس اپنے تشخص کو سعودی معاشرے کے بہت سارے حلقوں میں تقویت بخشنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ان کے مالی بدعنوانی سے متعلق عمل کو جرات مندانہ اقدام سمجھا جاتا ہے۔
محمد بن سلمان سعودی عرب جیسے انتہائی قدامت پسند معاشرے کو جدت پسندی کی راہ پر استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے نوجوان سعودی نسل کو 34 سالہ ولی عہد سے کافی زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔ اس ملک کی دو تہائی آبادی کی عمر 35 برس سے کم ہے۔
ایم بی ایس کے اصلاحات نے کم از کم سعودی خواتین کے لیے گاڑی خود ڈرائیو کرنے کا امکان پیدا کیا، نفرت انگیز مذہبی پولیس کو کافی حد تک بے اختیار کیا، اور مغربی پاپ اسٹاروں کو سعودی تفریحی مقامات تک پہنچایا۔ ایک دہائی قبل تک اسلامی ریاست میں یہ سب کچھ ناقابل تصور تھا۔
لیکن ایم بی ایس کا دوسرا پہلو بھی موجود ہے اور متعدد انسانی حقوق کے کارکن، جن میں بہت سی خواتین، جیل میں مقید ہیں اور حال ہی میں ان کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع کر دیا گیا ہے۔ حقوق انسانی کے گروپوں نے ایسی گرفتار خواتین پر تشدد کرنے کو بھی رپورٹ کیا ہے۔
اس کے علاوہ، حکومت پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کے سن 2018 کے قتل میں ایم بی ایس کے ’مشکوک‘ کردار نے بھی ان کی حکمرانی پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے۔