لداخ (اصل میڈیا ڈیسک) چین نے بھارتی وفد سے ملاقات سے کے بعد اپنے ایک سخت بیان میں کہا کہ لداخ میں سرحدی کشیدگی کے لیے پوری طرح سے بھارت ذمہ دار ہے اور چین اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑے گا۔
ایک ایسے وقت جب لداخ میں لائن اف ایکچوؤل کنٹرول پر چین اور بھارت کے مابین زبردست کشیدگی ہے، چین نے ایک بار پھر اس تناؤ کی ذمہ داری بھارت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ چینی فوج ملکی سالیمت کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں۔ ماسکو میں چینی اور بھارتی وزیر دفاع کے درمیان ایک اہم میٹنگ کے بعد یہ بیان سامنے آیا ہے۔
ایل اے سی پر کشیدگی کو دور کرنے کے مقصد سے ماسکو میں بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور ان کے چینی ہم منصب وی فینگے کے درمیان تقریبا ڈھائی گھنٹے کی ملاقات ہوئی۔ دونوں رہنما ‘شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے روس کے دورے پر تھے۔ اس ملاقات کے چند گھنٹے بعد ہی چین کی حکومت کی طرف جاری بیان میں ایل اے سی پر بھارتی حرکتوں پر شدید نکتہ چینی کی گئی ہے۔
بیجنگ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گيا، ’’چین اور بھارت کے درمیان سرحد پر موجودہ کشیدگی کی وجوہات اور اس کی حقیقت پوری طرح سے واضح ہے، اس کے لیے بھارت پوری طرح سے ذمہ دار ہے۔ چین اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں کھو سکتا اور اس کی مسلح افواج قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے تئیں پوری طرح پرعزم، پر اعتماد اور قابل ہیں۔‘‘
اس بیان میں چین نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان طے پانے والے معاہدوں پر دلجمعی سے عمل کرے اور تمام تصفیہ طلب مسائل مذکرات اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیں۔
چینی بیان میں کہا گیا، ’’چین اور بھارت کے درمیان تعلقات کو مزید اچھا کرنے، علاقائی امن و استحکام کی مجموعی صورتحال کو بہتر بنانے اور سرحدی علاقوں میں امن و امان کی حفاظت کرنے جیسے معاملات پر فریقین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
دوسری جانب بھارتی وزارت دفاع کی جانب جاری ایک بیان میں سرحد پر کشیدگی کے لیے چینی کارروائیوں کو ذمہ دار بتایا گيا ہے۔
بھارتی بیان کے مطابق چین کو بتا دیا گيا ہے کہ ’سرحد پر بڑی تعداد میں فوجیوں کی تعیناتی، ان کا جارحانہ رویہ اور یکطرفہ طور پر صورت حال کو تبدیل کرنے جیسی کوششیں دونوں کے ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی ہیں‘۔
بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا رواں برس مئی میں ہوئی تھی اور جون کے وسط میں وادی گلوان میں دونوں فوجیوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔
اس واقعے کے بعد سے فریقین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے کئی ادوار ہوچکی ہیں، تاہم کسی پیش رفت کے بجائے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
تازہ کشیدگی وجہ پیونگانگ جھییل کے جنوبی علاقے میں 30 اگست کی درمیانی شب بھارتی فوج کی کارروائی بتائی جاتی ہے جس میں بھارتی فوجوں نے جھیل سے متصل اونچی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
بھارت نے چین پر اشتعال انگیزی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی فوج نے اس علاقے میں صورت حال کو بدلنے کی کوشش کی جس کا بھارتی فوج کو پہلے سے پتہ چل گیا تھا اور بھارتی فوج نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔
لیکن چین نے اسے بھارتی فوجیوں کی دراندازی بتاتے ہوئے بھارت سے سخت احتجاج کیا تھا اور ان کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
چینی سفارت خانے کی ایک ترجمان جی رونگ کا کہنا تھا کہ فریقین کے درمیان 31 اگست کو جن امور پر اتفاق ہوا تھا، بھارتی فوجیوں نے، اس کی صریحا ًخلاف ورزی کی ہے۔
جی رونگ نے بھارتی افواج کے بارے میں کہا، ”انہوں نے پیونگانگ سو جھیل کے جنوبی علاقے اور مغربی علاقے میں لائن آف کنٹرول کو پار کیا اور ایسی اشتعال انگیز کارروائیاں کیں، جس سے سرحدی علاقے میں دوبارہ حالات کشیدہ ہوگئے۔‘‘
لداخ میں اس وقت بھارت اور چین کے کئی ہزار فوجی لائن آف ایکچوؤل کنٹرول کے دونوں جانب تعینات ہیں اور ان تازہ واقعات کے بعد سے خطے میں فوجی نقل و حرکت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کے ایک دفاعی تجزیہ کار اتپل بھٹا چاریہ کا کہنا ہے کہ اس وقت لداخ میں ایل اے سی کے بعض مقامات پر حالات کچھ زیادہ ہی کشیدہ ہیں۔ ان کے مطابق چوشلو کے علاقے میں چینی فوج کا رخ جارحانہ ہے اور بھارتی فوجیوں کو پیچھے دھکیلنے کے مقصد سے چین نے وہاں بھاری بھرکم جنگی ہتھیار نصب کیے ہیں۔
اس دوران بھارت نے بھی فوج کی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے سرینگر سے لیہ اور لداخ کی جانب آنے والی قومی شاہراہ کو عوام کے لیے بند کر دیا ہے، جس پر دن رات بھارتی فوجیوں کی گاڑیوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے۔
بھارت نے بھی ایل اے سی پر اپنی خصوصی فرنٹیئر فورسز کو تعینات کیا ہے اور لائن آف ایکچوؤل کنٹرول کے پاس ہی بڑی تعداد میں بھاری اسلحے پہنچا دیے ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق ایل اے سی پر حالات بہت کشیدہ ہیں اور اس وقت دونوں ملکوں کی فوجیں تقریباً برابر کی تعداد میں اپنی اپنی پوزیشن کا دفاع کر رہی ہیں۔