یمن (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے خبردار کیا ہے کہ چار شورش زدہ ممالک کانگو ، یمن ، شمال مشرقی نائیجیریا اور جنوبی سوڈان میں قحط اور بڑے پیمانے پر خوراک کے عدم تحفظ کے خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو ایک نوٹ لکھا ہے اوراس میں کہا ہے کہ یہ چاروں ممالک دنیا میں خوراک کے سب سے بڑے بحرانوں سے دوچار ہیں لیکن ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بہت کم رقوم مہیا کی جارہی ہیں۔
انھوں نے خوراک کے بحرانوں کے بارے میں 2020 کی عالمی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ اس ضمن میں فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ ’’ عوامی جمہوریہ کانگو ، یمن ،نائیجیریا کی شمال مشرقی ریاستوں اور جنوبی سوڈان میں برسوں سے جاری مسلح تنازعات کے نتیجے میں لوگوں کو خوراک کے عدم تحفظ اور ممکنہ طور پر قحط کے خطرے کا سامنا ہے۔‘‘
سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ مسلح تنازعات کا شکار دوسرے ممالک صومالیہ ، بورکینا فاسو اور افغانستان میں بھی خوراک کے تحفظ سے متعلق بنیادی اشاریے حوصلہ افزا نہیں اور وہ روبہ انحطاط ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان میں ’ہر ملک میں صورت حال مختلف ہے لیکن عام شہری قتل ہورہے ہیں، زخمی ہورہے ہیں یا انھیں بے گھر کیا جارہا ہے،ان کے زندگی کے ساماں کو تباہ کیا جارہا ہے اور خوراک کی دستیابی اور اس تک رسائی میں رخنہ ڈالا جارہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ زندگی بچانے والی امداد کی بہم رسانی میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں یا انسانی امدادی سرگرمیوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔‘‘
انتونیو گوٹیریس کا کہنا تھا کہ ’’تنازعات کا شکار ممالک میں خوراک کے عدم تحفظ میں اب قدرتی آفات ، اقتصادی جھٹکوں اور صحت عامہ کے بحرانوں کی وجہ سے زیادہ اضافہ ہو اہے۔‘‘
انھوں نے یمن کی صورت حال کے بارے میں اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ ’’دو سال قبل عرب دنیا کے اس غریب ترین ملک کو تنازع اور اقتصادی زبوں حالی کا سامنا تھا اور اس نے اس کوقحط کے کنارے لا کھڑا کیا تھا،آج پھراس طرح یمن کو خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔‘‘
انھوں نے ایک حالیہ سروے کے حوالے سے بتایا ہے کہ یمنی حکومت کے کنٹرول والے علاقوں میں قریباً 32 لاکھ افراد خوراک کے عدم تحفظ کے خطرے سے دوچار ہیں۔ان علاقوں میں خوراک کی قیمتوں میں 2015ء میں بحران کے آغاز کے بعد سے اوسطاً 140 گنا اضافہ ہوچکا ہے لیکن 2020ء میں انسانی امداد کے ضمن میں صرف 24 فی صد رقوم مہیا کی گئی ہیں۔اس کے نتیجے میں اب امدادی ایجنسیاں اپنے بنیادی پروگراموں کے حجم میں کمی کررہی ہیں یا انھیں بند کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔
دریں اثناء اقوام متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ مارک لوکاک نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا اور اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈاؤن، لوگوں کی نقل وحرکت پر قدغنوں اور سرحدوں کی بندش کے خوراک کی ضمانت اور زرعی پیداوار پرمنفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس تمام صورت حال میں انتہا پسند فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘