جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے مطابق کورونا سے متعلق سماجی پابندیوں کے خلاف حالیہ مظاہروں میں ایک بڑی تعداد دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی تھی۔
جرمنی میں کورونا وائرس کے پھیلا کی روک تھام کے لیے حکومت کی جانب سے نافذ کردہ پابندیوں کی مخالفت میں دائیں بازو کے انتہا پسند پیش پیش ہیں۔ پابندیوں کے خاتمے کے لیے نکالی گئیں تقریبا نوے چھوٹی بڑی ریلیوں میں دائیں بازو سے وابستہ سرکردہ شخصیات نے تقاریر کیں اور اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔
جرمنی کی داخلی انٹیلینس ایجنسی نے یہ معلومات جرمن پارلیمان میں بائیں بازو کی ‘لیفٹ پارٹی کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں مہیا کیں۔
کورونا وائرس کے پھیلا کو روکنے کے لیے نافذ کردہ پابندیوں کی مخالفت میں حالیہ مہینوں میں جرمنی بھر میں کئی مظاہرے منعقد ہوئے ہیں۔ اگست کے اواخر میں دارالحکومت برلن میں ہونے والے ایک ایسے ہی مظاہرے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
شرکا نے ‘کورونا آمریت اور ‘کورونا پاگل پن کے نعرے لگائے۔ برلن میں منعقدہ مظاہرے میں ایک ایسے گروہ کے ارکان نے بھی شرکت کی، جو خود کو ‘رائش برگر کہتے ہیں۔ یہ تنظیم جرمن ریاست کو تسلیم نہیں کرتی۔
اسی طرح نیو نازیوں کے مختلف گروپوں نے بھی برلن ریلی میں شرکت کی جبکہ اسلام اور مہاجرین مخالف سیاسی پارٹی ‘آلٹرنیٹوو فار ڈوئچلانڈ اے ایف ڈی کے حامی بھی بڑی تعداد میں دکھائی دیے۔
برلن میں منعدہ بڑی ریلی پر تو میڈیا کی کافی توجہ رہی مگر مشرقی ریاست سیکسنی انہالٹ، جہاں ایسے مظاہروں میں سب سے زیادہ دائیں بازو کے انتہا پسند دکھائی دیے، ذرائع ابلاغ کی آنکھ سے بچے رہے۔ پچیس اپریل اور دس اگست کے درمیان کورونا کے اقدامات کے خلاف منعقدہ ریلیوں میں سے ایک تہائی ریلیوں پر دائیں بازو کے انتہا پسند حاوی رہے۔
ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد جرمن حکومت نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ دائیں بازو کیانتہا پسند اپنے منشور کو وسعت دینے یا انہیں احتجاج کا کلیدی حصہ بنانے میں ناکام رہے۔
تاہم یہ واضح کیا گیا ہے کہ حکام اس کا باریکی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ جرمنی میں بائنں بازو کی لیفٹ پارٹی سے وابستہ قانون ساز اولا یلکے البتہ سمجھتی ہیں کہ حکومت کو اس معاملے کی شدت کا اندازہ نہیں۔