بیلاروس (اصل میڈیا ڈیسک) مشرقی یورپ کے ملک بیلاروس میں ہفتے کو عوامی مظاہروں کے بعد اتوار کو پھر دسیوں ہزار لوگ صدر لوکاشینکو کے خلاف دارالحکومت منسک کی سڑکوں پر نکل آئے۔
بیلاروس میں اپوزیشن کا الزام ہے کہ سکیورٹی فورسز کئی مظاہرین کو حراست میں لے کر حکومت مخالف مظاہرے کچلنے کی کوشش کر رہی ہيں۔
پچھلے چار ہفتوں سے جاری عوامی غم و غصے کی لہر میں نوجوانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر مسلسل تشدد کی شکایتیں ہیں۔ ہفتے کو بھی سکیورٹی اہلکاروں نے طلبا سمیت درجنوں مظاہرين کو حراست میں لے لیا۔
اس موقع پر خواتین نے حکومت کے خلاف ایک الگ ‘عورت مارچ‘ نکالا۔ حکومتی پکڑ دھکڑ کے باوجود کوئی 5000 خواتین نے اس مظاہرے میں شرکت کی۔ انہوں نے اپوزیشن کے سرخ و سفید پٹیوں والے پرچم اٹھا رکھے تھے اور وہ صدر لوکاشینکو کے لمبے اقتدار کے خاتمے اور نئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھیں۔
صدر الیکسانڈر لوکاشینکو سن 1994 سے اس سابق سویت ریاست کے حاکم رہے ہیں۔ ان 26 برسوں میں صدر لوکاشینکو چھ بار انتخابات میں اپنے مخالفین کا تقریباﹰ مکمل صفایا کرتے ہوئے کامیاب ہوتے آئے ہیں۔
اس بار 9 اگست کے انتخابات میں بھی سرکاری نتائج کے مطابق انہیں 80.1 فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کی مدمقابل خاتون امیدوار سویٹلانا ٹیخانوسکایا کے حق میں صرف 10.12 فیصد ووٹ پڑے۔ مبصرین کے مطابق ماضی کی طرح اس بار بھی دھاندلی کا سہارا لیا گیا۔
یورپی یونین کے مطابق بیلاروس کے یہ انتخابات آزادنہ اور منصفانہ نہیں تھے۔ برطانیہ ان انتخابی نتائج کو مسترد کر چکا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ کھل کر حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرے۔
پچھلے ہفتے یورپی یونین میں شامل تین بالٹک ممالک لیتھوینیا، لیٹویا اور اسٹونیا نے پڑوسی ملک بیلاروس کے صدر لوکا شینکو کے خلاف سفری پابندیاں عائد کردیں۔
ہفتے کو جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ایک بیان میں خبردار کیا کہ اگر صدر لوکاشینکو یورپی یونین کی تشویش نظرانداز کرتے رہے تو انہیں مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کا مطالبہ ہے کہ صدر لوکاشینکو اپوزیشن سے بات کریں اور نئے انتخابات کا اعلان کریں۔
صدر لوکاشینکو کا اپنے مغربی ہمسایہ ممالک پر الزام ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
بیلاروس کے روایتی اتحادی ملک روس کے صدر ولادیمیر پوٹن صدر لوکاشینکو کے اس موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر مغربی ممالک بیلا روس میں مداخلت سے باز نہ آئے تو ان کا ملک بیلاروس سمیت چھ سابق سویت ملکوں کے فوجی اتحاد کو حرکت میں لا سکتا ہے۔