ہانگ کانگ (اصل میڈیا ڈیسک) ہانگ کانگ کے رہنما کورونا وائرس کی وبا کو انتخابات میں تاخیر کا سبب قرار دے رہے ہیں لیکن مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بیجنگ کے دباو میں کیا گیا ہے۔
اتوار کے روز بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ انتخابات میں تاخیر کیے جانے سے ناراض تھے۔ پولیس نے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران تقریباً 300 مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
محکمہ پولیس نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ بیشتر مظاہرین کو ‘غیر قانونی طورپر جمع ہونے‘ کے الزام کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں حقوق انسانی کے لیے سرگرم دو اہم رہنما بھی شامل ہیں۔ ان میں سول ہیومن رائٹس فرنٹ گروپ کے فیگو چان اور بزرگ قانون سازلیونگ کوک ہنگ، جو ‘لمبے بالوں‘ کے نام سے معروف ہیں، شامل ہیں۔ آزادی کے حق میں نعرے لگانے پر ایک خاتون کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
پولیس نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ مذکورہ خاتون نے ہانگ کانگ کے قومی سلامتی قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔
ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ اخبار کے مطابق پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر پیپر (سیاہ مرچ) بالس داغے۔
ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکیوٹیو کیری لیم نے اپنے خصوصی ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے گزشتہ جولائی میں انتخابات کو اگلے سال تک کے لیے ملتوی کردیا تھا۔ انہوں نے اس کا سبب کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافہ بتایا تھا۔
تاہم ہانگ کانگ میں اس سال جنوری سے اب تک کورونا وائرس کے صرف 4800 کیسز سامنے آئے ہیں جو کہ دنیا کے دیگر بڑے شہروں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ کی بیجنگ نواز انتظامیہ دراصل اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ جمہوریت نواز اپوزیشن کو امید ہے کہ اگر بروقت انتخابات کرائے جائیں تو وہ ہانگ کانگ لیجس لیٹیو کاونسل میں متعدد سیٹیں جیت سکتی ہے۔
کاونسل کی نصف سیٹوں کے لیے براہ راست انتخابات ہوتے ہیں۔ دیگر نصف سیٹوں پر بالعموم ایسے افراد کو نامزد کیا جاتا ہے جو چینی حکومت کے وفادار ہیں۔
خیال رہے کہ ہانگ کانگ میں نئے سکیورٹی قانون کے نفاذ کے بعد سے متعدد مظاہرے ہوچکے ہیں۔ اس نئے سکیورٹی قانون کے نفاذ کے بعد متعدد ملکوں نے ہانگ کانگ کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات ختم کرلیے ہیں۔