اس ماں کا کیا کروں جو بیٹے کی بازیابی کے لیے عدالت میں کھڑی ہے؟

Protest

Protest

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ پاکستانی دارالحکومت سے لوگ اغوا ہو رہے ہیں لیکن سکیورٹی حکام کی توجہ زمینوں اور املاک کے کاروبار پر نظر آتی ہے۔

پیر سات ستمبر کو ساجد گوندل گمشدگی کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وزارت داخلہ، پولیس اور سکیورٹی ایجنسیاں ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ قانون کی عمل داری اور شہریوں کے تحفظ پر کسی کی توجہ نہیں۔

انہوں نے عدالت میں موجود سابق صحافی ساجد گوندل کی والدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ماں کا کیا کروں جو یہاں انصاف لینے آئی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ان کی جگہ وہاں کسی کی بھی ماں ہو سکتی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ساجد گوندل تین دن سے لاپتہ ہیں لیکن پولیس کے پاس کوئی جواب نہیں۔

انہوں نے عدالت میں موجود سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اسلام آباد سے دن دیہاڑے لوگ اغوا ہو رہے ہیں، ”آپ کو چاہیے کہ یہ بات وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے نوٹس میں لائیں۔‘‘

ساجد گوندل صحافی رہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے صحافت چھوڑ کر پاکستان میں مالیاتی اور کاروباری کمپنیوں کے نگران ادارے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں ملازمت کر لی تھی۔

ساجد گوندل کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔

وہ جمعرات کی شام سے گمشدہ ہیں اور ان کی سرکاری گاڑی جمعے کی صبح شہزاد ٹاؤن میں واقع محکمہ زراعت کے ایک دفتر کے باہر سے ملی تھی۔

ساجد گوندل کی والدہ کی درخواست پر ہفتے کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے اعلیٰ حکام کو جواب دہی کے لیے عدالت میں طلب کیا تھا۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں حکام کو متنبہ کیا کہ شہریوں کا اغوا اور ان کے تحفظ میں ریاست کی ناکامی ناقابل برداشت ہے۔ عدالت نے انہیں مغوی کی بازیابی کے لیے پیرکی دوپہر تک کا وقت دیا تھا۔

اتوار کو پاکستان میں جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور بدھ کو ساجد گوندل کے اہل خانہ کو اپنے دفتر میں ملاقات کے لیے طلب کیا۔

پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل پولیس سے استفسار کیا کہ آیا یہ طے ہو گیا ہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین مسنگ پرسنز کمیشن کا اختیار تو صرف جبری گمشدگی کا ہے، تو کیا ان کے پاس کوئی معلومات ہیں کہ یہ جبری گمشدگی کا واقعہ ہے؟

جواب میں آئی جی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اس بارے میں مزید کچھ نہیں معلوم اور انہیں بھی اس بارے میں کمیشن کے چیئرمین کا خط کل شام ہی موصول ہوا تھا۔

پاکستان میں آئے دن ملک کے کسی نہ کسی حصے سے انٹیلیجنس اہلکاروں کی طرف سے شہریوں کو اٹھا لینے کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ ریاستی اداروں کی جانب سے اغوا کیے جانے والے شہریوں کو ‘جبری گمشدگی‘ کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔ ان ماورائے قانون کارروائیوں کے آگے ریاست کے باقی ادارے اکثر بے بس اور کمزور نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں اس قسم کی کارروائیاں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ عام رہی ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران سندھ کے نوجوانوں کو بھی شک کی بنیاد پر اٹھا کر خفیہ جیلوں میں قید کیا جاتا رہا ہے۔ دارلحکومت اسلام آباد میں بھی خفیہ اہلکاروں کی پراسرار کارروائیاں عام ہوتی چلی گئی ہیں۔

ساجد گوندل کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔ گزشتہ روز ساجد گوندل کے چار بچوں اور گھر والوں نے ان کی بازیابی کے لیے اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر ان کے بچوں نے اپنے والد کی بازیابی کے لیے بینر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے۔