اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس عدالت میں جمع کرا دی گئیں۔ نواز شریف کے امراض قلب کے برطانوی سرجن اور معالج ڈاکٹر آر لارنس نے رپورٹ لکھی ہے جس کے مطابق طبی معالجین نے کورونا اور امراض قلب کے خطرات کے باعث نواز شریف کوسفر نا کرنے کی ہدایت کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ علاج کی تکمیل سے قبل بالخصوص کورونا صورتحال میں سفر سے نواز شریف کی جان کو خطرات ہیں، پہلے بھی تشخیص کی جاچکی ہے کہ مریض کے دل کے بڑے حصے کو نقصان پہنچ چکا ہے، پلیٹ لیٹس کی مقدار میں بے ترتیبی، قلب، شوگر اورگردے کے امراض بلیڈنگ اور ہارٹ اٹیک کا باعث بن سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دل کی بڑی شریان میں مرض سے مجموعی خطرات اورپیچیدگیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اس لیے تمام متعلقہ معالجین کی مشاورت سے جامع پروسیجر درکار ہے، کورونا کے باعث بہت سارے مریضوں کے علاج میں خلل پیدا ہوا ہے، اسپتالوں کی جانب سے شیڈول پر ہی یہ پروسیجر آگے بڑھے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ نوازشریف کا بنیادی طورپر علاج لندن میں ہورہا ہے، ان کے امراض اور علاج سے متعلق یہاں کے معالجین پوری معلومات رکھتے ہیں۔
رپورٹ میں ڈاکٹر لارنس نے کہا ہےکہ میری پرزور سفارش ہوگی کہ نواز شریف بہتر علاج کیلئے لندن میں ہی قیام کریں، ان کے دل کو خون پہنچنے میں دقت کا مرض خاصا بڑھ چکا ہے، انتہائی زیادہ میڈیکل تھیراپی کے باوجود نواز شریف کلاس ٹو انجائنا کے شکار ہیں اس لیے میری پرزور تجویز ہے کہ مریض کی کورونری انجیوگرافی کرائی جائے اور اس عمل کے بعد علاج کا طریقہ کار تجویز کرنا ممکن ہوسکے گی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہےکہ نوازشریف کی واپسی تب ہی ممکن ہے جب وہ علاج کے اس عمل سے گزریں، ان کو ریڈوکرونری آرٹری بائی پاس کی ضرورت ہوسکتی ہے جو پیچیدہ عمل ہے، انہیں کھلی جگہ مسلسل چہل قدمی تجویز کی گئی ہے اور چہل قدمی سے قبل ادویات بھی تجویز کی ہیں۔
دوسری جانب واشنگٹن میں امراض قلب کے پروفیسر فیاض شال نے بھی برطانوی معالج کی تشخیص اور رائے کی تائید کی ہے۔
پروفیسر فیاض نے برطانوی ڈاکٹر کی رپورٹ پر کہا ہےکہ انجیوگرافی ہونے تک نواز شریف کو لندن میں ہی رکنے کی ڈاکٹرلارنس کی رائے سے متفق ہوں، کورونا کی وبائی صورتحال میں نوازشریف کو سفر نہیں کرنا چاہیے، وہ کورونا سے متاثر ہوئے تو موت یا سانس نا آنے جیسے سنگین خطرات کا شکار ہوسکتے ہیں۔
پروفیسرفیاض شال نےکہا کہ نواز شریف کو تازہ ہوا میں کھلی جگہ پر باہر نکلنا چاہیے، وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں جو پاکستان جانے سے مزید بڑھ جائے گا، وہ گردے اور شوگر کی بیماری کا بھی شکار ہیں، نواز شریف کی دماغ کو خون پہنچانے والی شریان کی سرجری بھی ضروری ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوازشریف کو سرینڈر کرنے کے لیے 10 ستمبر تک کی مہلت دے رکھی ہے جس پر سابق وزیراعظم نے عدالتی حکم پر نظرثانی کے لیے درخواست دائر کردی ہے۔
اس کے علاوہ احتساب عدالت نے انہیں توشہ خانہ ریفرنس میں اشتہاری بھی قرار دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔
اس کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزا سنائی گئی تھی اور وہ اڈیالہ جیل میں قید تھے۔
میاں نوازشریف کی طبیعت 21 اکتوبر 2019 کو خراب ہوئی اور ان کے پلیٹیلیٹس میں اچانک غیر معمولی کمی واقع ہوئی، اسپتال منتقلی سے قبل سابق وزیراعظم کے خون کے نمونوں میں پلیٹیلیٹس کی تعداد 16 ہزاررہ گئی تھی جو اسپتال منتقلی تک 12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گرکر 2 ہزار تک رہ گئی تھی۔
نوازشریف کو پلیٹیلیٹس انتہائی کم ہونے کی وجہ سے کئی میگا یونٹس پلیٹیلیٹس لگائے گئے لیکن اس کے باوجود اُن کے پلیٹیلیٹس میں اضافہ اور کمی کا سلسلہ جاری ہے۔
نوازشریف کی صحت کے معاملے پر ایک سرکاری بورڈ بنایا گیا تھا جس کے سربراہ سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (سمز) کے پرنسپل پروفیسر محمود ایاز تھے جب کہ اس بورڈ میں نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی شامل تھے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف 16 روز تک لاہور کے سروسز اسپتال میں زیر علاج رہے جس کے بعد انہیں 6 نومبر کو سروسز سے ڈسچارج کرکے شریف میڈیکل سٹی منتقل کیا گیا تاہم شریف میڈیکل سٹی جانے کی بجائے ان کی رہائش گاہ جاتی امرا میں ہی ایک آئی سی یو تیار کیا گیا جس کی وجہ سے وہ اپنی رہائش گاہ منتقل ہوگئے۔
سابق وزیراعظم کی بیماری تشخیص ہوگئی ہے اور ان کو لاحق بیماری کا نام اکیوٹ آئی ٹی پی ہے، دوران علاج انہیں دل کا معمولی دورہ بھی پڑا جبکہ نواز شریف کو ہائی بلڈ پریشر، شوگراور گردوں کا مرض بھی لاحق ہے۔
نواز شریف کو لاہور ہائیکورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت دی ہے اور ساتھ ہی ایک ایک کروڑ کے 2 مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے 26 اکتوبر کو ہنگامی بنیادوں پر العزیزیہ ریفرنس کی سزا معطلی اور ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی اور انہیں طبی و انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 29 اکتوبر تک عبوری ضمانت دی تھی جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم کی سزا 8 ہفتوں تک معطل کردی۔
اس مقدمے میں سابق وزیراعظم کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
8 نومبر کو شہباز شریف نے وزارت داخلہ کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی اور 12 نومبر کو وفاقی کابینہ نے نوازشریف کو باہر جانے کی مشروط اجازت دی۔
ن لیگ نے انڈيمنٹی بانڈ کی شرط لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی اور 16 نومبر کو لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد 19 نومبر کو نواز شریف علاج کے لیے لندن روانہ ہو گئے۔