اندھے پن کا علاج، سائنسدان کے لیے 1 ملین یورو کا انعام

Blindness

Blindness

ہنگری کے طبی ماہر بوٹونڈ روسکا کی تحقیق سے دنیا میں اندھے پن کا علاج ممکن ہو سکتا ہے۔ اس تاریخ ساز تحقیق پر انہیں ایک ملین یورو کے انعام سے نوازا گیا ہے۔

اس سال جرمنی کی کوربر فاؤنڈیشن کا انعام برائے یورپین سائنس ہنگری کے ایک سائنسدان نے جیت لیا ہے۔ انہیں جرمن شہر ہیمبرگ میں ایک ملین یورو کے انعام سے نوازا گیا۔

بوٹونڈ روسکا سوئس شہر بازل میں اپنی تحقیق پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے جینیاتی تھراپی کے ذریعے خلیات کو ری پروگرام کرنے کا طریقہ دریافت کیا ہے، جس سے نابینا افراد کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ اس طریقہ علاج میں آنکھ میں موجود حساس رسیپٹرز روشنی پر ردعمل ظاہر کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں نابینا افراد کی آنکھوں کے ریٹنا دوبارہ متحرک ہو سکتے ہیں۔

اس طبی سائنسدان کے مطابق وہ اپنی تحقیق میں اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ایک نابینا شخص میں دیکھنے کی اتنی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، جیسے کہ وہ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی دیکھ رہا ہو۔ ان کی اس تحقیق کو دنیا میں انقلابی تحقیق قرار دیا جا رہا ہے۔

ہنگری کے اس سائنسدان کے مطابق اس طریقہ کار کی ٹیسٹنگ کے لیے نابینا افراد پر کلینیکل تجربات شروع کیے جا چکے ہیں۔ کوربر فاؤنڈیشن نے ایک بیان میں کہا، ”روسکا کی تحقیق سے ایک مرتبہ پھر یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اس نئے طریقہ علاج سے نابیناؤں کو بصارت مل سکتی ہے۔‘‘

جرمن کوربر فاؤنڈیشن پرائز پہلی مرتبہ انیس سو پچاسی میں دیا گیا تھا اور اس کا مقصد ایسے سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا، جن کی تحقیق انسانیت کا مستقبل بدل سکتی ہے۔

روسکا کے والد کمپیوٹر کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے پیانسٹ بھی تھے۔ روسکا نے بھی پہلے بوڈاپیسٹ کی ایک میوزک اکیڈمی میں وائلن سیلو کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا تھا لیکن ایک چوٹ لگنے کے بعد انہیں یہ تعلیم چھوڑنا پڑی۔ پھر انہوں نے طب اور ریاضی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔

گزشتہ برس یہ انعام جرمن سائنسدان بیرنہارڈ شوئلکوپف کو دیا گیا تھا۔ ان کی تحقیق مصنوعی ذہانت پر ہے۔