امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) روسی، چینی اور ایرانی ہیکرس نے امریکی صدارتی انتخابات کی مہم کو نشانہ بنایا ہے اور ماہرین کے مطابق یہ انتخابی مہم پر اثر انداز ہونے کے بجائے شاید خفیہ معلومات جمع کرنے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔
امریکا کی معروف ٹیکنالوجی کمپنی مائیکرو سافٹ کا کہنا ہے کہ روس، چین اور ایران سے تعلق رکھنے سائیبر آپریشنز نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ان کے حریف جو بائیڈن کی انتخابی مہم کو نشانہ بنایا ہے۔
مائیکرو سافٹ میں کسٹمر سکیورٹی شعبے کے نائب صدر ٹام برٹ کا کہنا تھا، ”آج ہم جس سرگرمی کا اعلان کر رہے ہیں اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ 2020 کے انتخابات کو نشانہ بنانے کے بارے میں جن خدشات کا اظہار پہلے سے ہی کیا جا رہا تھا، اس کے لیے کوششوں کو مزید تیز کردیا گیا ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”حالیہ ہفتوں میں، ہم نے ریاستی سطح پر بھی سائبر حملوں کا پتہ لگایا ہے جو امریکی انتخابات سے وابستہ افراد اور تنظیموں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مائیکرو سافٹ نے ان حملوں کے خلاف پہلے بھی مدد کی تھی اور اپنی جمہوریت کے دفاع کے لیے ہم یہ اقدامات آگے بھی کرتے رہیں گے۔” ٹام برٹ کا اشارہ 2016 کے انتخابات میں روسی مداخلت کی طرف تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ روسی ہیکرز نے ان انتخابات میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔
امریکا کے خفیہ اداروں اور نجی سائیبر سکیورٹی کمپنیوں نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں مداخلت کے لیے روس کی ایک عسکری تنظیم جی آر یو، جو ‘فینسی بیئر’ کے نام سے بھی معروف ہے، پر الزام عائد کیا تھا۔ مائیکرو سافٹ کا کہنا ہے کہ دونوں امیدواروں کی انتخابی مہم میں مداخلت کے لیے اس تازہ حملے میں بھی فینسی بیئر کا کافی فعال کردار نظر آتا ہے۔
مٹ ڈیمن ہالی ووڈ کے مشہور ترین اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے جرمن داراحکومت برلن کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا،’’کیا پتا کہ ٹرمپ کے بطور صدر منتخب ہونے کے بعد میں امریکا چھوڑ کر برلن میں آباد ہو جاؤں‘‘۔ ڈیمن اکثر اپنے بیانات میں ٹرمپ کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
برٹ کا کہنا تھا، جو کچھ ہم نے دیکھا وہ ماضی کے حملے کے نمونوں کے عین مطابق ہیں، اس میں امیدواروں اور انتخابی مہم کے عملے کو ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جو کلیدی امور پر صلاح و مشورے سے نوازتے ہیں۔”
سائیبر حملوں کی خبر کے رد عمل میں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ٹیم نے کہا کہ چونکہ اس میں صدر ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کی کوششوں بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا ہے اس لیے انہیں اس پر کوئی حیرانی نہیں ہے۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں کمیونیکیشن ڈائریکٹر ٹم مرٹاف کا کہنا تھا، ”صدر ٹرمپ جو بائیڈن کو ایماندارنہ اور منصفانہ طور پر شکست دیں گے اور ہمیں کسی بیرونی مداخلت کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہمیں چاہیے۔”
سائیبر حملوں سے متعلق چین اور ایران کی جانب سے ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم روس نے کہا ہے کہ اس بارے میں امریکی حکام ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ امریکا میں روسی سفیر نکلوؤف لیخونن نے کہا کہ امریکی حکام ابھی تک ”حقائق پر مبنی” کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کر سکے ہیں جس سے ثابت ہو کہ روس نے انتخابی مہم میں مداخلت کی کوشش کی ہے۔
چند روز قبل ہی امریکی کاؤنٹر انٹیلیجنس افسران نے کہا تھا کہ روس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری مدت کے لیے منتخب کرانا چاہتا ہے جبکہ چین کی کوشش ہے کہ صدر ٹرمپ آئندہ صدارتی الیکشن میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
امریکا کے ‘نیشنل کاؤنٹر انٹیلیجنس اینڈ سکیورٹی سینٹر‘ (این سی ایس سی) کے ڈائریکٹر ولیم ایوانینا کی طرف سے جاری ایک بیان میں اس یقین کا اظہار کیا گیا تھا کہ روسی صدر دفتر کریملن سے وابستہ کچھ شخصیات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی مدد کر رہی ہیں جبکہ ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرونی ممالک امریکا میں ووٹروں کی ترجیحات بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان ممالک کی کوشش ہے کہ امریکی پالیسیوں پر اثرانداز ہوں، ملک میں بے چینی پھیلائیں اور جمہوری عمل میں لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائیں۔
حکام نے خبردار کیا تھا کہ اس بار چین کی خواہش ہے کہ صدر ٹرمپ دوبارہ منتخب نہ ہوں اور اس کے لیے وہ ووٹنگ سے پہلے اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی انٹیلجنس حکام کے مطابق، روس اور چین کے علاوہ ایران بھی امریکی عوام میں گمراہ کن مواد پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔