افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) گیارہ ستمبر 2001 میں نیویارک میں القاعدہ کے حملوں کے بعد جرمنی نے افغانستان پر امریکی قیادت میں ہونے والی عسکری کارروائی کی حمایت کی تھی۔ اس تناظر میں انیس برسوں بعد جرمنی کو کیا حاصل ہوا؟
گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اس وقت کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروئڈر نے امریکی صدر کو اپنے ملک کی بھرپور حمایت کا یقین دلاتے ہوئے واشنگٹن کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ جرمنی کی جانب سے ایسے حالات میں امریکا کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی کیونکہ دونوں ملک جنگی صورتحال میں ایک دفاعی معاہدے کے تحت ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ اس یکجہتی کے اعلان کے بعد افغانستان میں انیس برسوں بعد جرمنی اپنی ذمہ داریاں اب بھی سنبھالے ہوئے ہے۔
معتبر امریکی براؤن یونیورسٹی کے تجزیے کے مطابق افغان جنگ میں ستمبر سن 2020 تک امریکی حکومت تقریباً دو ٹریلین ڈالرز (تقریباً 1.7ٹریلین یورو) جھونک چکی ہے۔ جرمن حکومت کے مطابق سن 2018 کے اختتام پر افغان جنگ میں ملکی عوام کی ٹیکس رقوم میں سے 16.4 بلین یورو صرف کیے جا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جرمن فوج کی نقل و حرکت پر بھی بارہ بلین یورو کا خرچہ اٹھ چکا ہے۔ بین الاقوامی اور جرمن سیاسی و سماجی حلقوں میں یہ ایک سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا یہ جنگ اتنی مالیت کی وقعت رکھتی ہے؟ ان مالی اعداد و شمار میں دوسرے ممالک کے اربوں ڈالرز کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔
دوسری جانب موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے جلد از جلد اپنے فوجیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ ایسے ہی امریکی فوج کے کمانڈر انچیف بھی اپنے ملک کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے متمنی ہیں۔ اس صورت حال سے امریکی اتحادیوں بشمول جرمنی پر بھی دباؤ بڑھ گیا ہے کہ امریکا اس جنگ سے نکلتا ہے تو آیا ان کی ذمہ داریاں بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائیں گی۔ اس کا مطلب ہوا کہ ادھر امریکا نے افغان جنگ کو خیرباد کہا تو اتحادی بھی خود بخود فارغ ہو جائیں گے۔ ان اتحادیوں میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے دیگر رکن ممالک بھی شامل ہیں۔
موجودہ افغانستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا دستور جمہوری روایات کا حامل ہے۔ خواتین پارلیمان کا حصہ ہیں۔ لڑکیوں کے اسکول جانے پر کوئی پابندی نہیں۔ آج کے افغانستان میں شہروں کی گلیاں بہتر ہوتی جا رہی ہیں، پرانے ہسپتالوں کی بحالی اور کئی نئے ہسپتال بھی تعمیر ہو گئے ہیں، پانی و بجلی کی فراہمی مناسب ہے، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی رسائی موبائل فون تک ہو چکی ہے لیکن ان تمام آسائشوں کے باوجود امن کا حصول ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران دہشت گردانہ حملوں اور پرتشدد جنگی حالات کی وجہ سے بتیس ہزار انسان ہلاک اور ساٹھ ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔
دری اور پشتو زبانیں بولنے والے جرمن شہری تھوماس روٹش ایک سابق سفارت کار ہونے کے علاوہ افغان امور کے ماہر بھی ہیں۔ وہ کابل اور برلن میں قائم ایک تجزیاتی نیٹ ورک کے شریک ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ افغانستان کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو بہت اداس اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سن 2001 میں افغان تنازعے کے اوائل میں جرمنی کا کردار بہت مثبت تھا لیکن یہ فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکا۔ روٹش کا کہنا ہے کہ جرمنی فوجی اعتبار سے افغانستان میں ناکام رہا کیونکہ ایک ہی حملے کے بعد جرمن فوج اپنی حفاظت کو فوقیت دیتی رہی اور افغان باشندوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی۔
روڈرش کیزویٹر سابق فوجی افسر اور چانسلر انگیلا میرکل کی حکمران جماعت سی ڈی یو کے ایک متحرک لیڈر ہیں۔ وہ سن 2009 سے رکن پارلیمنٹ چلے آ رہے ہیں اور میرکل کی خارجہ پالیسی کی ایک نمایاں آواز خیال کیے جاتے ہیں۔ وہ ستمبر گیارہ کے حملوں کو جرمن تاریخ سے جوڑتے ہیں۔ ان حملوں میں شریک اہم دہشت گرد محمد عطا نے ہوائی جہاز اڑانے کی تربیت جرمن شہر ہیمبرگ سے لی تھی۔ کیزویٹر کے مطابق افغان جنگ میں جرمن شمولیت ضمیر کی خلش کا نتیجہ تھی کیونکہ جرمن سلامتی کے ادارے اتنے بڑے دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں پیشگی معلومات حاصل کرنے سے قاصر رہے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ اس مشن کا جنگی اعتبار کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر اتنا طول پکڑنا بھی ایک سنگین غلطی قرار دی جا سکتی ہے کیونکہ پرامن تعمیرنو کے مشن میں جرمنی شامل نہیں رہا ہے۔ کیزویٹر کا کہنا ہے کہ اعلیٰ جرمن فوجی لیڈرشپ نے اپنی حکومت کو غلط مشورے دیے اور سن 2002 سے لے کر 2009 تک جرمن فوجی غلط ہتھیاروں کے ساتھ میدانِ جنگ میں متعین کیے گئے اور انہیں محدود انداز میں حرکت کرنا ہوتی تھی۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج بھی جرمن فوجی مقامی افغان فوجیوں کی عسکری و انٹیلیجنس استعداد بڑھانے میں مصروف ہیں۔ کیزویٹر کے مطابق اس انداز کے مشن پر ملکی خزانے سے آٹھ سے نو سو ملین یورو کے درمیان سالانہ خرچ اٹھ رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک اب یورپ اور اس کے اردگرد کی سلامتی اور استحکام پر توجہ دے۔
جرمن ماہرین افغانستان کی کرپشن کو بھی ملک کی موجودہ صورتحال کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ تھوماس روٹش کہتے ہیں کہ افغانستان میں مغرب کی مداخلت سراسر فوجی تھی اور دوسری جانب جس سیاسی اشرافیہ کا ساتھ دیا گیا، وہ سر تا پاؤں بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی تھی اور ڈوبی ہوئی ہے، ”اس طرح کونسا ملک بدحالی سے نکلنے میں کامیاب ہو سکتا ہے؟‘‘
تھوماس روٹش اور کئی دیگر تجزیہ کاروں کی نظر میں مغرب کو افغانستان میں وہ کامیابی نہیں ملی، جو یہ چاہتے تھے۔ افغانستان مسئلے کے ممکنہ حل کے بارے میں روٹش کہتے ہیں، ”میرے خیال سے یہ مسئلہ افغانوں کو خود حل کرنا ہو گا اور اگر یہ مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو ایک نئی جنگ شروع ہونے کا خدشہ ہے۔‘‘