پاکستان کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں صبح شام اصولوں اور قاعدوں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، بہت سے اخلاقیات کا درس مذہب کے حوالے سے دیا جاتا ہے؎لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں بے راہ روی غیر اخلاقی حرکتیں تیزی سے فروغ پارہی ہیں،اگرآپ کسی اوچھی حرکتوں کے ساتھ سڑک پر چلتے ہوئے شخص کو اصول کے ساتھ چلنے کی تلقین کریں تو وہ الٹا آپ کے گلے پڑجائے گا اور آپ کو جاتے جاتے اپنے کام سے کام رکھنے کا بھاشن بھی دے جائے گا،ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں پھیلی اس بے راہ روی اور غیراخلاقی حرکتوں کو روکنے والے ادارے یعنی پولیس یابیوروکریسی کے دیگر حکام بہت سی اسٹینڈرڈ گفتگو کرجاتے ہیں،یعنی واقعہ کا نوٹس لے لیا گیا یاپھر مجرم بہت جلد قانون کے کٹہرے میں ہونگے اور انہیں کیفر کردارتک پہنچائیں گے۔
یہ سب لوگ جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں اکثر پکڑے بھی جاتے ہیں مگر بیشتر ایسے بھی ہوتے ہیں جو اثر ورسوخ یا پیسوں کے بل بوتے پر سزاؤں سے بچ جاتے ہیں،اور لوگ بھی جس جوش اور جزبے سے ایسے لوگوں کو سرعام لٹکانے کی بات کررہے ہوتے ہیں ان کا بھی غصہ ٹھنڈا پڑگیا ہوتا ہے جو کہ یقینی طور پر ایک وقتی جزبہ ہوتا ہے، اسی طرح ہم اگر لوگوں کے جزبات کی بات کریں تو اس میں یہ ہوتا ہے کہ ان کا غصہ اور شوروقت کے ساتھ اور موقع کی مناسبت سے ہوتاہے یعنی کسی بچی کے ساتھ زیادتی ہو یاکسی خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ ہو، اس قسم کے واقعات اس وقت پیچھے چلے جاتے ہیں کیونکہ کوئی نیا معاملہ اس وقت تک سامنے آچکاہوتاہے، اس میں یہ کہنا کہ اس میں سارا قصور حکومتوں کا ہوتاہے یا بیڈ گورننس کی مثال ہے تو یہ غلط ہوگاکوئی حکومت یا اس کا نمائندہ اس قسم کے لوگوں کو ایسی حرکتوں کی اجازت نہیں دیتا اور نہ کوئی حکومت یہ چاہے گی کہ اس قسم کے واقعات ان کی حکومت میں رونما ہویہ سوچنا بہت حد تک خود معاشرے کا کام ہوتاہے کہ وہ اپنے اور اردگرد کے لوگوں میں یہ شعور اجاگر کرے کہ اس قسم کی گھٹیا حرکتوں سے لوگوں اور معاشرے کو کس قدر بڑے نقصان سے گزرنا پڑتا ہے۔
لوگوں میں یہ شعور جب آجائے گا تو اس قسم کی درندگی میں قدرے کمی آجائے گی ایک پاکستان کے شہر کراچی میں ننھی مروہ کو زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کردیا جاتاہے دوسری جانب لاہور موٹر وے پر ایک عورت کو کئی اوباش اور درندہ صفت لوگ بچوں کے سامنے ازیادتی کا نشانہ بناڈالتے ہیں اس پر کچھ لوگ پاکستان کو ایک المناک ملک قراردیدتے ہیں جبکہ پڑوسی ملک بھارت کو بھی دیکھیں جہاں اس قسم کے واقعات چلتی بسوں میں ہوجاتے ہیں حال ہی میں ایک چھیاسی سالہ بڑھیا کے ساتھ ایک زیادتی کا واقعہ پیش آیاہے جس نے پوری دنیا کے معاشرے کا سرشرم سے جھکادیا ہے کیونکہ درندگی کے لیے ضروری نہیں کہ یہ عورت مسلمان ہے یا پھر ہندو درندگی کسی بھی مذہب میں ہو وہ درندگی ہوگی اور ایسے واقعات کوکرنے والا جاہل آدمی ایک عبرت ناک سزاکا مستحق ہی ہوسکتاہے،ہاں ایسے معاملات میں معاشرے کے پڑھے لکھے لوگ جہاں ایک شعوری مہم سے اس قسم کی حرکتوں کی روک تھام کریں وہاں حکومت جو ہے وہ قانون کی عملداری پر بھرپور توجہ دے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے کی احکامات جاری کرے وہ ہر وقت خواتین بچے اور بچیوں کا تحفظ یقینی بناتے رہے۔
اسمبلیوں میں مذمتیں کرنے سے اس قسم کی حرکتیں نہیں ر کا کرتی بلکہ عملی اور قانون کی عملداری ہی اس مسئلے کاحل ہے جس میں معاشرے کے باشعور لوگ آگے بڑھ کر قانون کی مددکریں اپنے اردگرد درندہ صفت لوگوں پر نظر رکھیں اور ایسے مشکوک افراد کی فوری اطلاع اپنے قریبی تھانے میں دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں خواتین کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات میں ہر سال ہی اضافہ ہو تا چلاجاتاہے گزشتہ برسوں میں ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق تقریباً چار ہزار کے قریب بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہم زرا دوسالوں کا موازنہ کریں کہ اگر 2019میں چارہزار سے زیادہ واقعات ہوئے تو 2018میں 3,832 زیادتی کے واقعات ہوئے جو 2017کی نسبت گیارہ فیصد زیادہ بتائے جاتے ہیں اب اسی تسلسل سے چلتے چلے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ہر سال اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہاہے،یہ وہ واقعات ہے جو منظر عام پر آئے ہیں مگر جو میڈیا رپورٹ نہ ہوسکے اور جو کسی کے سامنے آہی نہ سکے تو اس پر کیا کہا جاسکتا ہے یعنی یہ بات اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ معصوم بچوں بچیوں اور خواتین کی آبرو ریزی کا سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں کی تعداد میں ہوتاہے جو شہروں اور گاؤں کہیں بھی ہوسکتاہے یہ وہ واقعات ہوتے ہیں جن کی خبر ہی نہیں بن پاتی اور سانحہ کتنا ہی بڑ اکیوں نہ ہو منظر عام پر نہیں آپاتا،مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جنسی زیادتی کے واقعات ملک کے کسی بھی حصے میں ہو اس کے اثرات پورے پاکستان میں ہی محسوس کیئے جاتے ہیں اس قسم کے اثرات ہم سب پر ہی مرتب ہوتے ہیں۔
اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے جہاں معاشرے کے پڑھے لکھے لوگوں کا کردار ہم بیان کرچکے ہیں وہاں ایک سوال یہ بھی اٹھتاہے کہ چھوٹے بچے جو ناسمجھ ہوتے ہیں ان کو کیسے ان درندوں سے بچایاجائے ایسے واقعات کی روک تھام میں پہلے والدین کا ہی حق ہے کہ وہ بچوں کی کڑی نگرانی رکھیں اور ان پر توجہ کریں والدین کے پاس تمام اختیارات موجود ہوتے ہیں مگر وہ بچوں پر اپنے اختیارات کو کس طرح کتنا اور کیسے استعمال کریں کہ بچہ ماں باپ سے ڈرنے لگے یا ان کا حکم ماننا شروع کردے مگر بچہ تو پھر بچہ ہی جو کھیل کود میں ماں باپ کا کہنا بھول بھی سکتاہے یا ماں باپ ہر وقت بچوں کو نگاہ میں نہیں رکھ سکتے اس لیے اصل خیال تو اس درندہ صفت معاشرے کو رکھنا پڑیگا، قصور کی زینب کا واقعہ جب ہوا تومیں خود ان کے والدین سے ملا جبکہ اندرون سندھ میں بے شمار ایسے واقعات کے متاثرہ خاندانوں سے مل چکا ہوں مگر ایسے واقعات کا حل نکالنے کے قابل نہ ہوسکا کیونکہ یہ ہر ایک کی الگ الگ ذمہ داری ہے۔
قصور میں 400 سے زیادہ ویڈیوز کا دریافت ہونا جس میں کہایہ گیا ہو کہ ان میں سے 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایاگیا ہو کس قدر المناک بات ہوسکتی ہے،یعنی کیا کسی ایک نے بھی اتنی درندگی کو نوٹ نہ کیا کیا معاشرے کے لوگوں سے یہ واقعات اوجھل رہے ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، لاہور میں گجرپورہ کے واقع نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ جنگل کے معاشرے اور پتھر کے دور میں بھی ایسے سانحات نے جنم نہ لیا ہوگا،یہ کیاوجہ ہے کہ آج تک اس ملک میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کا سلسلہ نہ رک سکا۔ خواتین کی آبرو ریزی معصوم بچوں کا زیادتی کے بعد قتل کرکے کھیتوں یا کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینا یہ کیا وجہ ہے کہ معاشرے کے کچھ لوگ اس قدر درندہ صفت ہیں کہ انہیں اس بات کا خیال بھی رہ پاتا کہ وہ اگرکسی کی ماں بہن بیٹی کو اس قسم کی غلیظ حرکت کا نشانہ بنائینگے تو کوئی ان کے گھر پر بھی ایسی نگاہ ڈال سکتاہے یہ ہی بات اگر ایسے درندہ صفت لوگوں کو سمجھ میں آجائے تو پھر بہت سے مسئلے خودبخود حل ہو جائینگے۔
Haleem Adil Sheikh
تحریر : حلیم عادل شیخ ممبر سندھ اسمبلی۔پارلیمانی لیڈر تحریک انصاف سندھ ۔ E:Mail.halee