مستقبل کے افغانستان میں شرعی نظام نافذ ہو گا یا امریکی طرز کی جمہوریت؟

Taliban Talks

Taliban Talks

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں قیام امن کے لیے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ مذاکرات کے پہلے دن بین الاقوامی امداد، خواتین کے حقوق، فائر بندی اور اسلامی نظام کے نفاذ سمیت کئی دیگر معاملات پر بات چیت ہوئی۔

یہ مذاکرات علامتی طور پر امریکا میں ستمبر گیارہ سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے 19 برس مکمل ہونے کے ایک دن بعد شروع کیے گئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ اور تمام فوجیوں کا انخلا چاہتے ہیں۔ نومبر میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور ٹرمپ کی کوشش ہے کہ ان معاملات کو جلد نمٹایا جائے۔ رواں سال فروری میں امریکا اور طالبان کے مابین ڈیل طے پائی اور اسی ڈیل کا ایک حصہ کابل حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات کا انعقاد تھا۔

ان مذاکرات کے آغاز سے قبل کئی ممالک اور قوتوں نے فریقین پر جنگ بندی اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے زور دیا۔ صدر ٹرمپ نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ وہ کابل حکومت کے لیے مالی امداد کو کسی ڈیل تک پہنچنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ طالبان افغانستان کہ ایک اسلامی ‘امارات میں بدلنا چاہتے ہیں جبکہ افغان صدر اشرف غنی کی خواہش ہے کہ مغربی حمایت یافتہ آئینی جمہوریہ کا نظام رائج رہے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کابل حکومت اور طالبان باغیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات آج ہفتہ بارہ ستمبر سے شروع ہو گئے ہیں۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ گرچہ متعدد چیلنجز موجود ہیں تاہم فریقین کو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی تفصیلی امن معاہدے تک پہنچنا چاہیے۔ پومپیو نے کہا، ”آپ ملک میں کس قسم کا سیاسی نظام چاہتے ہیں یہ فیصلہ آپ ہی کا ہے مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کے سلسلے کو توڑنے کے لیے تمام افغان شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا درست راستہ ہے۔

پومپیو نے مزید کہا کہ مستقبل میں افغانستان کو دی جانے والی مالی امداد کا دار و مدار دوحہ مذاکرات میں کیے گئے فیصلوں پر ہو گا۔ بعد ازاں افغانستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب زلمے خلیل زاد نے رپورٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی روکنے کے علاوہ اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کا تحفظ بھی مالی امدادی کی وصولی کے لیے لازمی ہے۔

مذاکرات میں افغان حکومت کے وفد کی قیادت سابق چیف ایگزیکیٹو اور افغان حکومت کی اعلی مصالحتی کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کر رہے ہیں۔ اپنے ابتدائی بیان میں انہوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ علاوہ ازیں عبداللہ عبداللہ نے کہا، ”اگر فریقین تمام نکتوں پر اتفاق نہ بھی کر پائے، تو بھی سمجھوتہ ضروری ہے۔ میرا وفد دوحہ میں ایک ایسے سیاسی نظام کی نمائندگی کر رہا ہے، جسے مختلف ثقافتوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے متنوع عوام کی حمایت حاصل ہے۔

طالبان کے وفد کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے اپنے ابتدائی بیان میں طالبان کا دیرینہ مطالبہ دہرایا کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔ ان کے بقول افغانستان میں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے جس میں تمام قبائل اور نسلوں کے لوگ بلا امتیاز اپنی زندگیاں محبت اور بھائی چارے سے گزار سکیں۔

یورپی یونین اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے دوحہ میں کابل حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کے آغاز کو سراہا ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ اس موقع سے فائد اٹھاتے ہوئے ملک گیر سطح پر اور فوری جنگ بندی کریں۔ نیٹو کی جانب سے کہا گیا ہے کہ امن عمل میں پیش رفت اور حالات کو دیکھتے ہوئے افغانستان سے افواج کے انخلا یا اس کی تعداد میں رد و بدل پر بات چیت کی جا سکتی ہے۔ تاہم نیٹو نے خبردار بھی کیا کہ امن عمل کے باوجود اس وقت افغانستان میں پر تشدد واقعات بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔ سیکرٹری جنرل ژینس اشٹولٹن برگ نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بنے۔

سیاسی مبصرین نے کہا ہے کہ ان مذاکرات میں کسی سمجھوتے تک پہنچنا ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور مطلوبہ مقاصد کے حصول میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔