خوشبو سے معطر ہیں صبح و شام کے منظر پھیلی ہوئی زلفوں کا دریچہ سا کھلا ہے چلتا ہے کوئی فرش پہ پھولوں کا خزینہ مخمل سے بدن پر کوئی ریشم کی ردا ہے یاقوت کے پہلو میں مر جان ہے کوئی انمول نگینوں میں موتی سا جڑا ہے چہرہ ہے ہر آن تجلی ہے حسن کی مانگی ہوئی مقبول کوئی دل سے دعا ہے انداز بیاں ہے کہ تصور ہو گلوں کا ہونٹوں پہ تبسم ہے تو آنکھوں میں ضیاء ہے اترے ہیں صبح و شام محبت کے صحیفے بکھری ہوئی چہرے پہ کوئی قوس قزاح ہے انداز روانی ہے کہ دریا ہے وا رفتہ پھیلا ہوا تقدیس محبت کا قلعہ ہے موندھی ہوئیں پیار سے مخمور سی پلکیں جیسے کوئی عاشق کہیں سجدے میں پڑا ہو ہر شخص کے لفظو ں میں بیاں اس کے حسن کا ہر کوئی صبح وشام قصیدوں میں پڑا ہے ساگر حسیں کتنا ہے یہ بے نور مجسمہ مٹی کا یہ عالم ہے تو پھر کیساخدا ہے