دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) دہلی فسادات کے سلسلے میں دہلی پولیس کی انکوائری کے طریقہ کار اور متعدد طلبہ، ماہرین تعلیم، کارکنوں، دانشوروں اور رہنماوں کے خلاف متنازع کارروائی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
دہلی فسادات کے نام پر گرفتاریوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی کے تحت دہلی پولیس نے سماجی کارکن اور سابق طالب علم رہنما عمر خالد کو کل رات دیر گئے گرفتار کر لیا۔ پولیس نے ان کی گرفتاری کے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے تاہم خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق عمر خالد کو دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہونے والے ‘یواے پی اے‘ کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ نامی تنظیم نے ان کی گرفتاری پر ایک بیان میں کہا،”دہلی پولیس فسادات کی انکوائری کی آڑ میں حکومت مخالف مظاہروں کو جرم کے زمرے میں شامل کر رہی ہے۔ لیکن خوف زدہ کرنے کی اس کی تمام کوششوں کے باوجود سی اے اے اور یو اے پی اے کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی۔”
عمر خالد کے والد اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رہنما ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک ٹوئیٹ کرکے بتایا کہ ان کے بیٹے کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے رات گیارہ بجے گرفتار کیا۔ اس سے قبل دہلی پولیس نے عمر خالد کو پوچھ گچھ کے لیے دفتر میں طلب کیا اور تقریباً گیارہ گھنٹے تک پوچھ گچھ کرتی رہی۔
ڈاکٹر عمر خالد دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں۔ انہیں بی جے پی مخالف سمجھا جاتا ہے۔ انہیں 2016 میں یونیورسٹی میں مبینہ طور پر ‘ملک مخالف‘ نعرے لگانے کے الزام میں بھی گرفتار کیا گیا تھا تاہم یہ الزام ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے اور انہیں بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ 2018 ء میں مہاراشٹر میں تشدد کے ایک واقعے میں بھی پولیس نے ان پر اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام لگایا ہے۔
عمر خالد کی گرفتاری کے خلاف متعدد تنظیموں، سول سوسائٹی اور اہم شخصیات نے دہلی پولیس کے کردار پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ معروف فلم اداکار پرکاش راج نے عمر خالد کی گرفتاری پر اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ اس طرح کی گرفتاریوں کے خلاف سب کو آواز اٹھانی چاہیے،” شرمناک… اگر ہم نے اس Witch Hunt کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تو ہمیں خود پر شرمندہ ہونا چاہیے…‘‘ انہوں نے StandwithUmarKhalid# اور FreeUmarKhalid # کے ہیش ٹیگ بھی استعمال کیے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق دہلی پولیس نے دہلی فسادات کے سلسلے میں ضمنی چارج شیٹ میں سابق ممبر پارلیمان اور بائیں بازو کے رہنما سیتارام یچوری، سماجی کارکن یوگیندر یادو، جے این یو کی پروفیسر ماہر اقتصادیات جییتی گھوش، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپور وانند اور فلم ساز راہول رائے کے نام بھی ملزمان کے طور پر درج کیے ہیں۔
دہلی پولیس نے تاہم ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ فی الحال زیر غور ہے۔ خیال رہے کہ دہلی پولیس براہ راست وفاقی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے، جس کا قلم دان امیت شاہ کے ہاتھوں میں ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ملزمان کی فہرست میں شامل لوگوں کے نام بعض گرفتار طلبہ اور کارکنوں کے مبینہ ‘اقبالیہ بیان‘ کی بنیاد پر درج کیے گئے ہیں۔ لیکن بتایا جارہا ہے کہ الگ الگ لوگوں کے نام پر یہ بیانات تقریباً یکساں ہیں۔ حتی کہ ان میں املاء کی غلطیاں بھی ایک جیسی ہیں۔
اس حوالے سے یوگیندر یادو نے بتایا،”ان کا نام ایک گواہ کی بنیاد پر درج کیا گیا ہے۔ پولیس کہتی ہے کہ گلفشاں نامی گواہ نے ان کا نام لیا تھا لیکن حقیقت میں یہ گلفشاں کا بیان نہیں ہے کیوں کہ بیان پر کوئی دستخط نہیں ہیں۔” عمر خالد پر الزامات کے حوالے سے یوگیندر یادو کا کہنا تھا، ”عمر خالد سے ڈیڑھ برس قبل میری ملاقات ہوئی تھی اور ان سے بات کر کے مجھے لگا کہ آج بھی اس ملک میں اتنے سمجھدار اور سنجیدہ نوجوان ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ ایسے لوگ ہر خاندان میں پیدا ہوں۔”
یوگیندر یادو کا مزید کہنا تھا ”دہلی پولیس کے دامن پر پہلے سے ہی سن 1984(سکھ مخالف فسادات) کے داغ موجود ہیں۔ سب کچھ اس کے سامنے ہوا اس کے باوجود لیپاپوتی کی گئی کیوں کہ اس وقت کی حکمراں (کانگریس) جماعت یہی چاہتی تھی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک کھیل سن 2020 میں کھیلا گیا ہے۔ جن لوگوں پر زیادتیاں کی گئیں اور جن لوگوں نے آئین کی حفاظت کے لیے پرامن مظاہرے کیے انہیں کو ملزم بنادیا گیا۔”
ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی حقوق انسانی کی تنظیمیں کہتی رہی ہیں کہ فسادات کے دوران خود پولیس کا ہی رول مشتبہ تھا۔ یہ تنظیمیں پولیس کی انکوائری پر بھی سوالات اٹھاچکی ہیں۔
دریں اثنا بھارت کے مشہور پولیس افسران میں سے ایک ممبئی کے سابق پولیس کمشنر جولیو ریبیرو نے دہلی پولیس کمشنر کو ایک خط لکھ کر کہا،”دہلی پولیس صرف ان لوگوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، جو پرامن مظاہرے کر رہے تھے جب کہ بی جے پی کے سینئر لیڈران، جنہوں نے تشدد سے پہلے فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں ان کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ”یہ مجھ جیسے سمجھدار اور غیر سیاسی لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث ہےکہ (بی جے پی کے رہنماؤں) کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کو عدالت میں کیوں پیش نہیں کیا گیا جب کہ پر امن احتجاج کرنے والے مسلمانوں اور خواتین کو کئی ماہ سے جیل میں رکھا گیا ہے۔”