اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی 22 ستمبر کو حاضری کے لیے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی سزا کے خلاف اپیلوں اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ضمانت منسوخی کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت کی جانب سے آج اشتہاری ملزم کی درخواست پر سماعت کی قانونی پوزیشن پر دلائل طلب کیےگئے تھے، عدالت نے استفسار کیا تھا کہ کیاکسی ایک کیس کے اشتہاری ملزم کی دوسرے کیس میں درخواست سنی جا سکتی ہے؟
خیال رہے کہ نواز شریف کو توشہ خانہ ریفرنس میں احتساب عدالت سے اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ نوازشریف لندن میں ہیں اورپاکستان واپس آنے کی پوزیشن میں نہیں،ڈاکٹرز نے نواز شریف کو سفرکرنے سے منع کیا ہے، نوازشریف نے واضح طورپر اپنی درخواست میں کہاکہ وہ پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں، نواز شریف کو ڈاکٹرز نے سفرکی اجازت دی تو وہ پہلی فلائٹ سے واپس آجائیں گے۔
دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس ديےکہ ضمانت لےکر باہر جانے والے نے سرجری نہیں کرائی،نہ ہی اسپتال داخل ہوا، نواز شریف کے میڈيکل سرٹیفکیٹ ایک کنسلٹنٹ کی رائے ہے جو کسی اسپتال کی طرف سے نہیں ۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی اسپتال نے نہیں کہاکہ ہم کورونا کی وجہ سے نوازشریف کو داخل کرکے علاج نہیں کرپارہے، ہمارا ضمانت کا حکم ختم ہو چکا ہے جس کے اپنے اثرات ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت ختم ہو چکی ہے اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ نوازشریف کی ضمانت ختم ہوچکی ہے،اب صرف سوال یہ ہےکہ کیاوہ پاکستان واپس آنےکی پوزیشن میں ہیں یانہیں؟ ہم نےنوازشریف کے میڈیکل سرٹیفکیٹ دیے ہیں،نیب اور وفاقی حکومت نےان میڈیکل سرٹیفکیٹس کی تردید میں کچھ پیش نہیں کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی واپسی سےمتعلق معاملہ لاہورہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے، ِاس کورٹ سے باہر جانے کی اجازت نہیں مانگی گئی،ضمانت ایک مخصوص مدت کے لیے تھی اورشاید یہ بات لاہورہائی کورٹ کونہیں بتائی گئی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمارے سامنےصرف ایک سوال ہےکہ ضمانت دی تھی جوختم ہوگئی،اب ہم کیاکریں۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیب آرڈینینس کے تحت مفرور ملزم کو3سال تک قیدکی سزاسنائی جاسکتی ہے،عدالت کے پاس اختیار ہے کہ مفرور کی اپیل مسترد کر دے یا خود اس کے لیے وکیل مقرر کرے، قانون کے بھگوڑے کوریلیف دینےسےانصاف کانظام متاثرہوگا،عدالت سرینڈر کرنے کا موقع فراہم کرچکی ہے۔
عدالت نے نیب کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف کی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی اور ان کے 22 ستمبر کو حاضری کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
یاد رہے کہ جولائی 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 11 اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 8 جب کہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
بعدازاں 19 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو سنائی گئی سزا معطل کرتے ہوئے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
سابق وزیراعظم نے سزا ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کررکھاہے جب کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب نے ان کی ضمانت منسوخ کرانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائرکی ہے۔