امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ 2017ء میں شامی صدر بشارالاسد کو قتل کرنا چاہتے تھے مگر اس وقت ان کے وزیر دفاع جیمز میٹس نے شام میں اس آپریشن کی مخالفت کردی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’’”میں ان (بشارالاسد) کی جان لیتا چاہتا تھا اور اس کے لیے میں نے تمام تیاری مکمل کرلی تھی لیکن جیمز میٹس ایسا نہیں چاہتے تھے۔انھیں جنرل کے طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا اور میں نے انھیں جانے دیا تھا۔‘‘
ان کے اس نئے انکشاف سے 2018ء میں واشنگٹن پوسٹ کے مایہ ناز رپورٹر باب ووڈ وارڈ کی ایک رپورٹ کی تائید ہوتی ہے۔انھوں نے اپنی کتاب ’’خوف: وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ‘‘ میں امریکی صدر کے اس منصوبے کی تفصیل لکھی تھی۔
لیکن تب صدر ٹرمپ نے خود اس رپورٹ کی تردید کردی تھی۔انھوں نے 5 ستمبر 2018ء کو اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’اس منصوبے پر تو کبھی غور ہی نہیں کیا گیا تھا۔‘‘
انھوں نے فاکس نیوز سے اس انٹرویو میں ایک مرتبہ پھر اپنے سابق وزیردفاع جیمز میٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے حالانکہ انھوں نے ان کا پینٹاگان کی قیادت کے لیے خود ہی انتخاب کیا تھا اورانھیں ایک ’’عظیم آدمی‘‘قرار دیا تھا لیکن بعد میں بہت سے امور پر ان دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور امریکی فوج کے سابق جنرل کو اپنے عہدے سے استعفا دینا پڑا تھا۔
صدر ٹرمپ نے مبیّنہ طور پر اپریل 2017ء میں شامی شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے بعد بشارالاسد کو ہلاک کرنے پر غورکیا تھا۔باب ووڈ وارڈ نے اپنی کتاب میں صدر کے یہ الفاظ نقل کیے تھے:’’امریکی افواج آگے بڑھیں اور بشارالاسد کو قتل کردیں۔‘‘
انھوں نے لکھا تھا کہ جیمز میٹس نے ٹرمپ کو بتایا تھا کہ ’’وہ اس پر کوئی درست اقدام کریں گے ۔انھوں نے اس منصوبہ کو صرف ایک محدود فوجی حملے تک محدود کردیا تھا۔‘‘
صدر ٹرمپ نے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’انھیں بشارالاسد کو نشانہ نہ بنانے کے فیصلہ پر کوئی افسوس نہیں۔میں یقینی طور پر انھیں (بشارالاسد کو) کوئی اچھا شخص خیال نہیں کرتا ہوں اور میں ان کی جان لینا چاہتا تھا مگر میٹس اس کے خلاف تھے۔‘‘
واضح رہے کہ شامی صدر بشارالاسد کے خلاف 2011ء کے اوائل میں پُرامن مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں سے عوامی احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی۔انھوں نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے شامی مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے محابا استعمال کیا تھا۔اس کے بعد شامی مظاہرین نے ان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے اور مسلح بغاوت برپا کردی تھی۔
بشارالاسد کی حکومت پر گذشتہ برسوں کے دوران میں شہریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے کے الزامات عاید کیے جاتے رہے ہیں۔ان میں حکومت مخالفین پر تشدد ، ان کے خلاف مقدمات کی سرسری سماعت کے بعد موت سمیت کڑی سزائیں دینے ،خواتین کی عصمت ریزی اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال ایسے الزامات شامل ہیں۔
یادرہے کہ باب ووڈ وارڈ ہی نے 1970ء کے عشرے میں مشہور زمانہ واٹر گیٹ اسکینڈل کو بے نقاب کیا تھا۔اس کے نتیجے میں صدر رچرڈ نکسن کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔وہ متعدد تاریخی اہمیت کی حامل کتب کے مصنف ہیں اور ان میں وہ وائٹ ہاؤس میں پنپنے والی خفیہ کہانیوں،اہم فیصلوں کے رازوں اور ان کے پس پردہ کرداوں کو بے نقاب کرچکے ہیں۔انھوں نے گذشتہ قریباً پچاس سال کے دوران میں برسراقتدار آنے والے امریکی صدور اور ان کے طرز حکومت کے بارے میں کتب لکھی ہیں۔