امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی انتخابات میں خارجہ پالیسی شاذ و نادر ہی ایک نمایاں موضوع رہی ہے۔ تبصرہ نگار اینس پوہل کے مطابق اسرائیل اور خلیجی عرب ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کے معاہدے سے ٹرمپ اپنی موثر قیادت کی نمائش چاہتے ہیں۔
امریکی صدارتی انتخابات میں پچاس سے بھی کم دن باقی بچے ہیں۔ منگل کو اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے مابین ہونے والے سفارتی معاہدے کا فائدہ براہ راست ڈونلڈ ٹرمپ کو پہنچے گا۔ اس میڈیا پرسنیلٹی کو علم ہے کہ کس طرح طاقت کی چمک کو اپنے ارد گرد رکھنا ہے۔ ٹرمپ جانتے ہیں کہ بطور سیاستدان مشکل حالات میں بھی اپنے حامیوں اور ممکنہ ووٹروں کو کس طرح اپنی طرف مائل کرنا ہے۔
اب اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں ہے کہ یہ ڈیل، جو بنیادی طور پر مالی مفادات کے لیے ہے، میں فلسطینیوں کو بُری طرح سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ آیا ممکنہ طور پر مستقبل میں اس بنیاد پر کوئی حقیقی امن معاہدہ قائم ہو سکتا ہے؟ عرب بلاک، جو فلسطینیوں کے پیچھے طویل عرصے سے متحد کھڑا تھا، اب اس کا وجود ختم ہو چکا ہے۔
دوسری جانب زیادہ تر امریکی خود کو اس قدر غیرمحفوظ سمجھ رہے ہیں، جس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے سروں پر ایک مہلک وباء اور بڑے معاشی مسائل ایک تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں۔ علاوہ ازیں غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی ہے، جو مغربی ساحل کے بڑے حصوں کو غیر معمولی حد تک جلا رہی ہے۔
اس وقت خوف میں مبتلا بہت سے امریکیوں کے پاس اس ڈیل پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ بہت سے امریکی ان تباہیوں اور آفات کے براہ راست ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت سے تعلق کے بارے میں سوچنے کی بجائے، اس شخص کو مزید چار سال دینے پر راضی ہیں، جو صرف اپنی کامیابی کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن ٹرمپ کے حامیوں کی نظر میں وہ ایسی شخصیت ہیں، جنہوں نے دنیا کو دکھایا ہے کہ طاقت کس کے پاس ہے اور امریکا کو کس نے صحیح مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔
تو منگل کو خلیجی ممالک اور اسرائیل کے مابین ہونے والی ڈیل میں طاقتور شخصیات کی شمولیت عین وقت کی مناسبت سے تھی۔ 74 سالہ ٹرمپ نے اپنے ناقدین کو دکھایا ہے کہ طاقت ان کے پاس ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ اب ٹرمپ کے 77 سالہ حریف امیدوار جو بائیڈن شاید واقعی ضعیف نظر آئیں۔