عدل تو کب کا بانجھ ہو گیا ہے

Justice

Justice

تحریر : نسیم الحق زاہدی

بہت دنوں سے لکھنے کی کوشش کررہا ہوں مگر کبھی قلم ساتھ نہیں دیتا تو کبھی الفاظ نہیں ملتے ۔”اباآپ کل سر اٹھا کے جیوگے”ان الفاظ نے سینہ چیر کے رکھ دیا ہے ۔یہ الفاظ فرسودہ اور ناکام نظام حکومت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔یقین جانیے یہ تھانے وڈیروں،جاگیرداروں اور بااثر افراد کی ذاتی عدالتیں ہیں جہاں بیٹھ کر وہ اپنی مرضی کے فیصلے صادر کرتے ہیں ۔یہ پولیس والے آج کے نہیں بلکہ روز اول سے وڈیروں،جاگیرداروںاور بااثر افراد کے ذاتی غلام ہیں ان کا کام ہی قانون کا لبادہ اوڑھ کر مجرموں کی پشت پناہی کرنا ہے ۔ایسے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں واقعات ہیں جن میں پولیس والوں نے مظلوموں کی دادرسی کرنے کی بجائے الٹاانکے ساتھ ظلم کیا ،ایف آئی آر درج کرنے کی بجائے الٹا ڈرانا دھمکانا،گندی اور غلیظ گفتگواخلاقیات سے گرے ہوئے سوالات،ہراساں کرنا اور مٹھائی کے نام پر رشوت کھانا،پیسے کی خاطرجھوٹے پولیس مقابلوں میں بے گناہوں کو مارنا یہ تو بالکل عام سی باتیں ہیں ۔

“عوام پولیس ڈیپارٹمنٹ کے بارے میں کیسی کیسی باتیں کرتی ہے زیادہ اچھی امیج نہیں یقین جانیے ،اگر کسی غریب آدمی کی جیب کٹ جائے اور غلطی سے وہ تھانے میں رپورٹ لکھوانے آجائے تواس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ خود مجرم ہوتمہارے جیب کہاں کٹی؟کیا وقت تھا؟تم وہاں کیا کررہے تھے ؟تمہاری جیب میں پیسے کتنے تھے ؟ارے تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے ؟ایسے اناپ شناپ سوال پوچھ کر اس کی بولتی بندکردیتے ہیں۔پھر اسے کہتے ہیں باہر سے کچھ کھانے کو لیکر آاور کچھ سگریٹ بھی لانا ،مجبوراًاس آدمی کو جانا پڑتا ہے ۔اور اس کے جاتے ہی پولیس والے آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ اس علاقے کا جیب کترا کون ہے ؟ماجو، ارے نہیں نہیں ماجونہیں وہ تو گائوں گیا ہوا ہے۔

راجو نے کاٹی ہو گی ،راجو کوبلایا جاتا ہے اسے گرفتار نہیں کیا جاتا بلکہ اس سے اپنا حصہ لیا جاتا ہے ۔ صبح آفس جانے کی جلدی میں کوئی موٹر سائیکل والا غلطی سے سنگل سے تھوڑا آگے نکل جائے تو قیامت آجاتی ہے۔موٹرسائیکل سائیڈ پر لگائو ،لائسنس دکھائو،موٹر سائیکل کی لائٹ جلتی ہے ؟ہوا ہے ٹائر میں ؟پٹرول ہے؟۔ایسے پوچھ داچھ کرتے ہیں جیسے وہ بچارہ سنگل نہیں بارڈر کراس کرنے کوشش کررہا ہو۔اور یہ سختی قانون کے لیے نہیں ،اپنی جیب کے لیے کی جاتی ہے ،بیس پچاس جو بھی مل جائے ۔پولیس تھانوں میں دلالوں ،مجرموں کی آئو بھگت کی جاتی ہے انہیں کرسی پیش کی جاتی ہے ۔کرائم اگر دن بدن بڑھتا جارہا ہے تو اس کے ذمہ دار یہ لوگ ہیں ۔کل تک لوگوں کی جیبیں کا ٹنے والا آج لوگوں کی گلے کاٹ رہا ہے تو اس کے ذمہ دار یہ لوگ ہیں ۔کل تک چرس فروخت کرنے والا آج ہتھیاربیچ رہا ہے تو اس کے ذمہ دار یہ لوگ ہیں ۔

ایک چکلہ چلانے والا دیکھتے دیکھتے بااختیار بن جاتا ہے تو اس کے ذمہ دار یہ لوگ ہیں ۔انکو ہر ماہ ملنے والی تنخواہ کوئی ایم این اے یامنسٹر نہیں دیتا بلکہ یہ عوام کے پیسے ہیں ۔اس عوام کے جن سے یہ لوگ کبھی تمیز سے بات بھی نہیں کرتے۔عوام نے دیس کی حفاظت کے لیے باڈر پر جوانوں کو رکھا ہے ۔اور سماج کی حفاظت کے لیے پولیس والوں کو،جوان تو اپنا کام کرتے ہیں ۔یقین جانیے اپنے جوانوں کو دیکھ کر ایک تحفظ اور محافظ کا احساس ہوتا ہے اور ایک پولیس والے کو دیکھ ڈر لگتا ہے کہ کہیں اگلے لمحے گولی ہی نہ مار دے اور اگر یہ گولی مار بھی دے گا تو کونسی اس کو سزا ہونی ہے ؟۔زیادہ سے زیادہ معطل یا لائن حاضر جو چند عرصہ بعد بحال ہوکر پہلے سے زیادہ طاقتور ہوجائے گا ۔اور مرنے والے انسان جس نے ساری زندگی میں کبھی ایک چیونٹی بھی نہ ماری ہوگی، کو سینئرز پولیس افسران پریس کانفرس کے ذریعے سب سے بڑا دہشت گرد ثابت کردیں اور پھر اس بے گناہ مرنے والی کی بوڑھی ماں ،بہن ،بیوی،بیٹی انصاف کی امید لگائے سالوں عدالتوں کے چکر لگاتیں لگاتیں آخر خود بھی موت کی آغوش میںچلی جاتی ہیں مگر انصاف پھر بھی نہیں ملتا ۔ایسے نظام کو اٹھا کر گندے نالے میں پھینک دینا چاہیے ۔

یہ قانون کے رکھوالے کب تک دلالی کرتے رہیں گے ؟؟؟۔اگر اس تھانے کے ایس ایچ او نے اس بااثر لقمان کے خلاف برقت قانونی کاروائی عمل میں لائی ہوتی تو بے گناہ مظلوم بچی کبھی خود کشی نہ کرتی اس کو علم تھا کہ یہ ناانصافی پر قائم معاشرہ ہے ۔کفر پر قائم معاشرے میں انصاف تو ممکن ہے ،مگر ناانصافی پر معاشرے میں انصاف نہیں ملتا۔چند ٹکو ں کی خاطر اپنا دین دھرم بیچنے والے یہ عوام کی حفاظت کی وردی پہننے والے کل روز قیامت اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے ؟”ابا آپ کل سر اٹھا کے جیوگے”یہ اس معصوم صنف نازک نے کتنی اذیت میں الفاظ ادا کیے ہونگے بہاولپور کی اس مظلوم بیٹی کا جراثیم کش سپرے پینے سے پہلے یہ دل تو چاہا ہوگا کہ وہ چیخ چیخ کر اپنے رب سے یہ پوچھے کہ تو انسانی درندے کیوں پیدا کرتا ہے ؟۔تو ظالم کو صاحب اقتدار کیوں بناتا ہے ؟۔منصف ہے تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتا ۔ایسے ہزاروں ،لاکھوں واقعات ہیں ۔جن میں راہبر راہزن بن گے اور محافظ لٹیرے ۔موٹر وے پر خاتون کے ساتھ زیادتی میں ملوث ایک ملزم عابدپہلے بھی گینگ ریپ کی ایک واردات میں ملوث رہا ہے اور سزا سے بچ گیا تھا۔یہی اصل وجہ ہے ۔اس قسم کے دس میں سے صرف ایک یا دو واقعات میں ملزمان کو سزا ملتی اور سزا دلوانے کے لیے بھی مظلوم زور لگاتا ہے ،ریاست زور نہیں لگاتی ۔چند ماہ پہلے کی بات ہے سندھ کے شہر سہیون میں ایک عورت نے پسند کی شادی کر لی۔

اس کے والد کی شکایت پر پولیس نے عورت کو گرفتار کیا سول جج کی عدالت میں پیش کیا ۔سول جج نے والد اور پولیس سے کہا کہ آپ عدالت سے باہر جائیں میں ملزمہ سے اس کی مرضی معلوم کیا چاہتا ہوں ۔جج نے عورت سے پوچھا کہ تم نے والد کے ساتھ جانا ہے یا خاوند کے ساتھ ؟عورت نے کہا خاوند کے ساتھ جانا ہے تو جج صاحب نے عورت کو اپنے چیمبر میں بلایا اور ریپ کردیا ۔عورت کی شکایت پر مقدمہ درج ہو گیا لیکن جج کو سزا نہیں ملی ۔زیادہ پرانی بات نہیں اوکاڑہ اور کراچی کے علاقہ لانڈھی میں تازہ قبروں سے عورتوں کی لاشیں نکال کر انکی عصمت دری کرنے والے افراد گرفتار کیے گئے۔

دونوں کو سزا نہیں ملی۔3ستمبرلاہور کے علاقہ رائیونڈمیںایک دلسوز واقعہ پیش آیا جہاں پر ایک شخص جو کہ اوکاڑہ کا رہنے والا تھا اپنی فیملی کے ساتھ یہاں پر کھیتوں میں کام کرکے گزر بسر کرتا تھا ۔اور اپنی فیملی کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میںرہائش پذیر تھا ۔تین انسانی حیوان اس کے گھر داخل ہوئے اور اس کے بیٹے کے سامنے اسکی ماں اور شوہر کے سامنے اسکی بیوی کو باری باری اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور گھر میں جتنا بھی سامان تھا سب لوٹ کر فرار ہوگئے اور جاتے ہوئے دھمکیاں بھی دیتے رہے ۔ایف آئی آر تو درج ہوگئی مگر اس دن کے بعد مدعی اپنی زندگی کو بچانے کے لیے کہیں چھپ گیا ہے ۔اس سلسلہ میں جب میڈیا نے پولیس احکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا یہ بہت پرانا واقعہ ہے ۔ایس پی انویسٹی گیشن کو جب میڈیا پر آکر اس سلسلہ میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ افسران بالا کا حکم ہے کہ کسی میڈیا پرسن سے بات نہیں کرنی کیمرہ کے سامنے نہیں آنا ،صاف انکار کردیا۔چودہ روز تک ڈی این اے رپورٹ نہ آسکی۔

ظلم صاحب اولاد ہے میرے دیس میں
نسیم عدل تو کب کا بانجھ ہو گیا ہے۔

Naseem Ul Haq Zahidi

Naseem Ul Haq Zahidi

تحریر : نسیم الحق زاہدی