امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر نے ایمی کونی بیریٹ کو سپریم کورٹ کے نئے جج کے طور نامزد کر دیا ہے۔ اس فیصلے سے صدر ٹرمپ قدامت پسند ووٹرز کے مفادات کرتے ہوئے اعلی عدالت کو اور زیادہ دائیں بازو کی طرف لے گئے ہیں۔ اینس پوہل کا تبصرہ
رواں مہینے کے اوائل میں انتقال کر جانے والی جج روتھ بیڈر گِنسبرگ کی جگہ امریکی سپریم کورٹ میں نئے جج کی نامزدگی کر دی گئی ہے۔ جسٹس گِنسبرگ نے اپنی ساری زندگی صنفی حقوق کی حمایت میں بسر کی۔ انہوں نے بلا تفریق سب کے لیے ہیلتھ کیئر کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بھرپور کوششیں جاری رکھیں۔ وہ خواتین کو اسقاطِ حمل کا حق دینے کی حامی تھیں۔ جسٹس گِنسبرگ اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی مخالف ہونے کے علاوہ انسان دوست مہاجرت پالیسی کی حامی بھی تھیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اڑتالیس سالہ ایمی کونی بیریٹ کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر نامزد کیا ہے۔ بیریٹ کئی حوالوں سے جج گِنسبرگ سے بالکل مختلف ہیں۔ بیریٹ کیتھولک مسیحی عقیدے پر شدت سے کاربند ہیں۔ وہ اسقاطِ حمل کی مخالف ہیں۔ اسی طرح وہ ٹرمپ کی ممانعتی امیگریشن پالیسی کی حمایت کرتی ہیں۔ وہ تمام امریکیوں کو ہیلتھ کیئر فراہم کیے جانے کے حق میں بھی نہیں ہیں۔
خیال کیا گیا ہے کہ ان کا انتخاب سارے ملک میں جارحانہ رویے کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہے۔ امریکی معاشرہ انیسویں صدی کی خانہ جنگی کے بعد پہلی مرتبہ اتنا منقسم ہوا ہے۔ امریکی خانہ جنگی نے غلاموں کو آزادی دی تھی۔
صدر ٹرمپ کا تین نومبر کے صدارتی الیکشن سے قبل سپریم کورٹ میں جج کی خالی ہو جانے والی نشست کے لیے نامزدگی کا فیصلہ متنازعہ ہے۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ اتنا جلدی فیصلہ غیرضروری ہے۔ عوامی ووٹوں سے ہی ایک نئے چیف جسٹس کا انتخاب کیا جاتا تو مناسب ہوتا۔ اس موقف کی حمایت ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن بھی کرتے ہیں۔
بظاہر بائیڈن نے نامزگی کے لیے کسی خاتون قانون دان کا نام تو نہیں لیا لیکن وہ افریقی امریکی خاتون کو جج نامزد کرنے کی کوشش کرتے جو نسلی امتیاز اور ہتھیاروں سے متعلق قوانین کی مخالف اور ہیلتھ کیئر کی حامی ہوتیں۔ ایسا ہوتا تو روتھ بیڈر گِنسبرگ کے نظریے کا تسلسل ہوتا۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکی سینیٹ نئے جج کی نامزدگی کی جلد توثیق کر دے گی اور بیریٹ صدارتی انتخابات سے قبل سپریم کورٹ کے جج کی پوزیشن سنبھال لیں گی۔
اس طرح ٹرمپ کی اپنی مدتِ صدارت میں ملکی عدالتِ عظمی کے لیے تیسری نامزدگی کو حتمی صورت حاصل ہو جائے گی۔ ٹرمپ کے دور میں سپریم کورٹ کا جھکا مزید دائیں بازو کی جانب ہو جائے گا۔ امریکی سپریم کورٹ کے جج کا منصب تاحیات ہوتا ہے اور کوئی بھی جج خود سے دستبردار ہو سکتا ہے۔
اگر ٹرمپ وہ دوسری مدتِ صدارت کے لیے الیکشن میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو وہ چوتھے جج کی تعیناتی کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوں گے۔ اس تناظر میں وہ ایسے ریپبلکن ووٹرز کو اپنی جانب راغب کر سکتے ہیں جنہوں نے ووٹ ڈالنے کا ابھی ارادہ نہیں کیا۔
ایک اور بات بھی اہم ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی اور مزید نامزدگی سے ملکی سپریم کورٹ ریپبلکن ہاتھوں میں چلا جائے گا اور اگلے کسی صدر کو نیا جج نامزد کرنے کا موقع بھی نصیب نہیں ہو گا۔
ٹرمپ امریکی سپریم کورٹ کو اور زیادہ دائیں بازو کی طرف لے گئے، تبصرہ
Posted on September 28, 2020 By Majid Khan اہم ترین, بین الاقوامی خبریں
Shortlink:
Donald Trump
امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر نے ایمی کونی بیریٹ کو سپریم کورٹ کے نئے جج کے طور نامزد کر دیا ہے۔ اس فیصلے سے صدر ٹرمپ قدامت پسند ووٹرز کے مفادات کرتے ہوئے اعلی عدالت کو اور زیادہ دائیں بازو کی طرف لے گئے ہیں۔ اینس پوہل کا تبصرہ
رواں مہینے کے اوائل میں انتقال کر جانے والی جج روتھ بیڈر گِنسبرگ کی جگہ امریکی سپریم کورٹ میں نئے جج کی نامزدگی کر دی گئی ہے۔ جسٹس گِنسبرگ نے اپنی ساری زندگی صنفی حقوق کی حمایت میں بسر کی۔ انہوں نے بلا تفریق سب کے لیے ہیلتھ کیئر کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بھرپور کوششیں جاری رکھیں۔ وہ خواتین کو اسقاطِ حمل کا حق دینے کی حامی تھیں۔ جسٹس گِنسبرگ اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی مخالف ہونے کے علاوہ انسان دوست مہاجرت پالیسی کی حامی بھی تھیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اڑتالیس سالہ ایمی کونی بیریٹ کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر نامزد کیا ہے۔ بیریٹ کئی حوالوں سے جج گِنسبرگ سے بالکل مختلف ہیں۔ بیریٹ کیتھولک مسیحی عقیدے پر شدت سے کاربند ہیں۔ وہ اسقاطِ حمل کی مخالف ہیں۔ اسی طرح وہ ٹرمپ کی ممانعتی امیگریشن پالیسی کی حمایت کرتی ہیں۔ وہ تمام امریکیوں کو ہیلتھ کیئر فراہم کیے جانے کے حق میں بھی نہیں ہیں۔
خیال کیا گیا ہے کہ ان کا انتخاب سارے ملک میں جارحانہ رویے کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہے۔ امریکی معاشرہ انیسویں صدی کی خانہ جنگی کے بعد پہلی مرتبہ اتنا منقسم ہوا ہے۔ امریکی خانہ جنگی نے غلاموں کو آزادی دی تھی۔
صدر ٹرمپ کا تین نومبر کے صدارتی الیکشن سے قبل سپریم کورٹ میں جج کی خالی ہو جانے والی نشست کے لیے نامزدگی کا فیصلہ متنازعہ ہے۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ اتنا جلدی فیصلہ غیرضروری ہے۔ عوامی ووٹوں سے ہی ایک نئے چیف جسٹس کا انتخاب کیا جاتا تو مناسب ہوتا۔ اس موقف کی حمایت ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن بھی کرتے ہیں۔
بظاہر بائیڈن نے نامزگی کے لیے کسی خاتون قانون دان کا نام تو نہیں لیا لیکن وہ افریقی امریکی خاتون کو جج نامزد کرنے کی کوشش کرتے جو نسلی امتیاز اور ہتھیاروں سے متعلق قوانین کی مخالف اور ہیلتھ کیئر کی حامی ہوتیں۔ ایسا ہوتا تو روتھ بیڈر گِنسبرگ کے نظریے کا تسلسل ہوتا۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکی سینیٹ نئے جج کی نامزدگی کی جلد توثیق کر دے گی اور بیریٹ صدارتی انتخابات سے قبل سپریم کورٹ کے جج کی پوزیشن سنبھال لیں گی۔
اس طرح ٹرمپ کی اپنی مدتِ صدارت میں ملکی عدالتِ عظمی کے لیے تیسری نامزدگی کو حتمی صورت حاصل ہو جائے گی۔ ٹرمپ کے دور میں سپریم کورٹ کا جھکا مزید دائیں بازو کی جانب ہو جائے گا۔ امریکی سپریم کورٹ کے جج کا منصب تاحیات ہوتا ہے اور کوئی بھی جج خود سے دستبردار ہو سکتا ہے۔
اگر ٹرمپ وہ دوسری مدتِ صدارت کے لیے الیکشن میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو وہ چوتھے جج کی تعیناتی کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوں گے۔ اس تناظر میں وہ ایسے ریپبلکن ووٹرز کو اپنی جانب راغب کر سکتے ہیں جنہوں نے ووٹ ڈالنے کا ابھی ارادہ نہیں کیا۔
ایک اور بات بھی اہم ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی اور مزید نامزدگی سے ملکی سپریم کورٹ ریپبلکن ہاتھوں میں چلا جائے گا اور اگلے کسی صدر کو نیا جج نامزد کرنے کا موقع بھی نصیب نہیں ہو گا۔
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com