عراق (اصل میڈیا ڈیسک) عراق میں داخلی سلامتی کی انتہائی مخدوش صورت حال پیدا ہے۔ امریکی مفادات پر بھی آئے دن حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکی مفادات کو درپیش خطرات اور حملوں سے ٹرمپ انتظامیہ ناخوش ہے۔ اس تناظر میں واشنگٹن نے بغداد میں امریکی سفارت خانے کو بند کر دینے کی دھمکی دی ہے۔
یہ دھمکی موجودہ وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کی لڑکھڑاتی حکومت کو مزید بے سہارا کر سکتی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ عراق پچھلے چند برسوں سے امریکا اور ایران کی رسہ کشی میں پِس رہا ہے۔ ایران مخالف امریکی پالیسی کے نتیجے میں بغداد حکومت کو سن 2018 کے بعد سے واشنگٹن کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
عراق میں سفارت خانہ بند کرنے کی تنبیہہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چند روز قبل عراقی صدر برہم صالح سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران کہی۔
امریکی وزیر خارجہ کے الٹی میٹم پر امریکی حکام نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ایران نواز مسلح گروہ عراقی سرزمین پر قائم امریکی ٹھکانوں پر راکٹ پھینکنے میں ملوث ہیں۔
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
اس الٹی میٹم کی تصدیق عراقی وزارتِ خارجہ کے حکام نے بھی کی ہے۔ عراقی ذرائع کے مطابق پومپیو نے واضح کیا کہ بغداد حکومت کے لیے امریکی فوجی اور سفارتی علاقوں پر راکٹ پھینکنے کے عمل کو فوری طور پر کنٹرول کرنا ضروری ہے بصورتِ دیگر سفارت خانہ بند کرنے کے علاوہ فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔
عراقی دارالحکومت میں ایک سرکاری اہلکار نے شناخت مخفی رکھتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ امریکی صرف ناراض نہیں بلکہ وہ شدید غصے میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور حکومتی اہلکار کے مطابق امریکی و عراقی ‘ہنی مون‘ اب اپنی منزل کو پہنچ گیا ہے۔
بغداد کے انتہائی سکیورٹی والے علاقے گرین زون میں چند سو امریکی سفارت کار موجود ہیں اور بقیہ ملک میں واقع تین ملٹری اڈوں پر تین ہزار فوجی متعین ہیں۔
ان مقامات پر سن 2019 سے راکٹ داغنے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر تیار کردہ بارودی مواد پھینکنے کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی اور عراقی حکام اس کی ذمہ داری ایران نواز مسلح گروہ کاتب حزب اللہ پر عائد کرتے ہیں۔
امریکا کی جانب سے کاتب حزب اللہ کے ٹھکانوں پر دو مرتبہ حملے کیے جا چکے ہیں۔ ایسے ایران نواز مسلح گروپوں کو موجودہ عراقی حکومت میں بظاہر کوئی سیاسی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ ایک بڑا عسکری گروہ حشد الشعبی بھی ایسے حملوں کی مذمت کر چکا ہے۔
تمام تر مذاکراتی اور عسکری کوششوں کے باوجود عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کی حکومتی بے سکونی ختم نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے رواں برس مئی میں منصبِ وزارتِ عظمیٰ سنبھالا تھا اور تب سے ان کی حکومت کو مسلسل علاقائی اور امریکی دباؤ کا سامنا ہے۔
گزشتہ ماہ اگست میں الکاظمی کو دورہ امریکا میں بھی میزبان ملک نے اپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے مزید عملی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔