واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) تین نومبر کو امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلکن امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق نائب صدر جوبائیڈن سے ہو گا۔ اسی سلسلے میں دونوں امیدواروں کے درمیان پہلا صدارتی مباحثہ اوہائیو میں ہوا۔
مہم کے دوران تو امیدواروں کی ٹیم منظم طریقے کے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرتی ہے لیکن مباحثے کے سٹیج پر پوری مہم امیدوار کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور یہی وہ لمحہ ہے جو سب سے زیادہ پرخطر سمجھا جاتا ہے۔
فاکس نیوز سے منسلک سینئیر صحافی کرس والیس نے اس مباحثے میں میزبان کا فریضہ سرانجام دیا۔ انھوں نے فرداً فرداً دونوں امیدواروں سے سوالات پوچھے اور انھیں جواب کے لیے 2، 2 منٹ کا وقت دیا۔
تاہم جوابات دیتے ہوئے دونوں صدارتی امیدوار ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے نظر آئے جس پر کرس والیس نے مداخلت کر کے انھیں ضابطے کے مطابق اپنا جواب دینے کو کہا۔
اس مباحثے کے آغاز سے پہلے دستور کے مطابق دونوں صدارتی امیدواروں نے مصافحہ نہیں کیا جس کی وجہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے سماجی دور کے ضابطے پر عمل کرنا ہے۔ دونوں امیدواروں کے اہلِ خانہ وہاں موجود ہیں۔
پہلے مباحثے کی ترتیب کیا تھی؟
پہلا مباحثہ چھ مراحل پر مشتمل تھا، جس میں چھ سوالات تھے۔ ہر مرحلہ 15 منٹ پر مشتمل تھا۔
سپریم کورٹ میں نئی نامزدگی الیکشن سے پہلے کیوں؟
کرس والیس نے ٹرمپ سے پہلا سوال سپریم کورٹ کے آئندہ چیف جسٹس کی نامزدگی کے حوالے سے کیا کہ وہ انھیں کیوں نامزد کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے جو بائیڈن کا مؤقف ہے کہ جج کی نامزدگی الیکشن کے بعد ہونی چاہیے۔
اس موقع پر دونوں نے ایک دوسرے سے سوال پوچھا کہ آپ کیسے درست ہیں؟
ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ چونکہ انھوں نے الیکشن جیتا اس لیے انھیں جج کو منتخب کرنے کا اختیار ہے۔
ٹرمپ نے بہت پرسکون انداز میں سوالوں کے جواب دیے۔
انھوں نے سپریم کورٹ کے لیے جسٹس ایمی کونی بیرٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا وہ ہر لحاظ سے اچھی ہیں۔
ساتھ ہی انھوں نے یہ الفاظ بھی دہرائے کہ میں چار سال کے لیے صدر منتخب ہوا ہوں تین کے لیے نہیں۔
صحت کے نظام پر سوالات
صحت کے نظام پر گفتگو کے دوران دونوں صدارتی امید وارں نے جذباتی انداز بھی اختیار کیا۔
ٹرمپ سے جوبائیڈن نے اوبامہ ہیلتھ کیئر کے حوالے سے پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ہیلتھ کیئر سے متعلق کوئی پلان نہیں ہے۔
جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ اوباما کیئر ایک تباہی ہے، چاہے آپ اسے کتنے ہی اچھے طور پر چلا لیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکیوں کی بڑی تعداد بنیادی صحت کی سہولیات سےمحروم ہے۔
اس موقع پر کرس والیس نے کورونا وائرس کے حوالے سے سوال کیا اور یہ بھی کہا کہ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔
انھوں نے پوچھا کہ وہ اگلے برس کے آغاز تک کیا کریں گے اور امریکی شہریوں کو ان کے حریف کی نسبت صحت عامہ کے لیے ان پر بھروسہ کیوں کرنا چاہیے۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اگر جو بائیڈن ہوتے تو 2 لاکھ سے زیادہ امریکی کورونا سے ہلاک ہوتے۔
جو بائیڈن نے ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے وبا کے خطرات پر پردہ ڈالا جواب میں ٹرمپ نے ان کے سیاسی کریئر پر بات کی اور کہا کہ آپ نے 47 برس تک کچھ نہیں کیا۔
ٹرمپ کے اہلِ خانہ کی جانب سے ماسک نہ پہننے جانے پر ٹوئٹر صارفین کی جانب سے ان پر تنقید کی جا رہی ہے
اگلاسوال معیشت
کرس والیس نے دونوں امیدواروں سے سوال کیا کہ وہ لاک ڈاؤن کے بعد معیشت کی بحالی کے لیے کیا منصوبے سوچے ہوئے ہیں۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے ’تاریخ کی سب سے عظیم معیشت‘ قائم کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے پہلے بے روزگاری کی شرح انتہائی کم تھی، لاکھوں امریکی غربت سے باہر نکلے اور امریکہ میں تاریخی اقتصادی ترقی ہوئی۔
کرس والیس نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ نے سنہ 2016 اور 2017 میں فیڈرل انکم ٹیکس کی مد میں 750 ڈالر ادا کیے۔
جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’میں نے کئی لاکھ ڈالر ادا کیے، میں نے تین کروڑ 80 لاکھ ڈالر ایک سال اور دو کروڑ 70 لاکھ ڈالر ایک سال میں ادا کیے۔‘
اس موقع پر جو بائیڈن نے انھیں چیلنج کیا کہ وہ اپنے ٹیکس ظاہر کریں تو ٹرمپ بولے آپ انھیں دیکھ لیں گے جب آڈٹ ختم ہو جائے گا۔
صدر ٹرمپ کا موسمیاتی تبدیلی پر اظہارِ خیال
موسمیاتی تبدیلیاں امریکی صدارتی انتخاب میں اس دفعہ کلیدی اہمیت کے حامل موضوعات میں سے ایک ہے۔
ماڈریٹر کرس والیس نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ انھوں نے کیوں ماحولیاتی تحفظ کے قوانین ختم کیے اور انسانوں کی پیدا کردہ موسمیاتی تبدیلیوں پر ان کا کیا مؤقف ہے۔ جواباً انھوں نے ریگولیٹری تبدیلیوں کے بارے میں کہا کہ ‘یہ کم خرچ ہیں’۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان کی پالیسیوں سے کاروبار کو فائدہ ہوا ہے۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ مغربی امریکہ میں جنگلات کی آگ کے مسئلے کو ‘جنگلات کے بہتر انتظام’ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
وہ پہلے بھی یہ دعویٰ کر چکے ہیں۔
ماڈریٹر کی جانب سے اصرار پر انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ انسان موسم پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سفید فام نسل پرستوں اور ملیشیا کے ارکان کی مذمت کریں گے جنھوں نے ملک میں نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو مزید اکسایا۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا: ‘میں کہوں گا کہ ہم جو کچھ بھی ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں تقریباً وہ سبھی بائیں بازو کی جانب سے ہے، دائیں بازو کی طرف سے نہیں۔’
جو بائیڈن اور کرس والیس دونوں نے صدر ٹرمپ پر سفید فام نسل پرستوں کی مذمت کرنے کے لیے زور دیا تھا۔
انھوں نے پورٹلینڈ اور دیگر امریکی شہروں میں احتجاجی مظاہرین سے تصادم میں ملوث ‘مردوں کے حقوق’ کی تنظیم پراؤڈ بوائز سے کہا: ‘پراؤڈ بوائز، پیچھے ہٹ جاؤ اور رک جاؤ’۔
پھر انھوں نے کہا کہ اصل خطرہ اینٹی فا سے ہے جو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے فاشزم مخالف گروہوں کا ایک کمزور سا اتحاد ہے۔
پراؤڈ بوائز اکثر اوقات مظاہروں میں اسلحے سے لیس ہو کر آتے ہیں جیسا کہ اوریگون میں گذشتہ ہفتے ہونے والے اس مظاہرے میں دیکھا گیا
ٹوئٹر پر زیادہ تر صارفین کا خیال تھا کہ ٹرمپ نے مکمل طور پر سفید فام نسل پرستوں کی مخالفت نہیں کی حالانکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسا کرنے پر رضامند ہیں۔
بی بی سی کے ووٹر پینل کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دونوں امیدواروں نے نسل پرستی کے سوال کا گول مول جواب دیا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی کرسٹین گریگز نے کہا: ‘مجھے نہیں لگتا کہ دونوں میں سے کسی نے بھی میرے لیے تسلی بخش جواب دیے۔ بائیڈن کی بات جامع تھی لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ منظم نسل پرستی کے خلاف کیا کریں گے۔’
ریپبلیکن پارٹی کے حامی برائن شیلگرین نے کہا: ‘میں کرسٹین سے اتفاق کرتا ہوں کہ کسی بھی امیدوار نے نسل پرستی کا واضح جواب نہیں دیا۔ مجھے لگتا ہے کہ کسی سیاستدان کو یہ کہنے کے قابل ہونا چاہیے کہ ‘میں نفرت انگیز گروہوں کا حامی نہیں، مگر ٹرمپ نے کھلے انداز میں یہ نہیں کہا کہ وہ پراؤڈ بوائز کی حمایت نہیں کریں گے۔’
لیکن یہ مباحثہ کب اصل میں الیکشن پر اثر انداز ہوگا؟
اگرچہ اب ٹی وی دیکھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے لیکن پھر بھی لاکھوں امریکی روزانہ ٹی وی دیکھتے ہیں۔
1960میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر جان ایف کینیڈی اور نائب صدر رچرڈ نکسن پہلے ٹی وی مباحثے میں شامل ہوئے تھے
1960 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر جان ایف کینیڈی اور نائب صدر رچرڈ نکسن پہلے ٹی وی مباحثے میں شامل ہوئے تھے۔
کینیڈی کی ٹیم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ قریبی افراد کے لیے تر و تازہ نظر آرہے ہیں جبکہ صدر نکسن ایک بیماری سے صحت یاب ہو رہے تھے۔
ان کا سوٹ فٹنگ میں بھی درست نہیں تھا اور وہ اس دوران اپنا پسینہ پونچھ رہے ہیں۔
کہانی یہ ہے کہ سات کروڑ ٹی وی ناظرین میں سے زیادہ تر لوگوں نے محسوس کیا کہ مباحثہ نوجوان جان ایف کینیڈی نے جیت لیا ہے، جبکہ صرف ریڈیو پر کام کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ تجربہ کار مسٹر نکسن تھے۔
ریپبلکن امیدوار رونلڈ ریگن نے مختصر اور دلچسپ انداز اختیار کرتے ہوئے صدر جمی کارٹر کو 1980 میں مباحثے میں شکست دی تھی۔
سنہ 2000 میں ایل گور جارج بش کے مقابلے میں تھے۔
ٹرمپ اور بائیڈن اگلے مباحثے کہاں کریں گے؟
ایجنڈے میں صدارت کے لیے تین مباحثوں میں سے ایک آج ہوا جبکہ دوسرا اور تیسرا اکتوبر میں ہو گا۔
اسی طرح نائب صدر مائیک پینس اور سینیٹر کمالا ہیرس کا مقابلہ ہو گا۔ یہ سات اکتوبر کو سالٹ لیک سٹی میں ہوگا۔
یہ تمام مباحثے گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق شب 2 بجے سے ساڑھے تین بجے شروع ہوں گے اور اس دوران کوئی تشہیری وقفہ نہیں ہوگا۔