استاد کسی معاشرے کا وہ معزز رکن ہے جو معاشرے کو اپنی علمیت، قابلیت، صلاحیت اور شبانہ روز محنت سے بام عروج تک پہنچاتا ہے۔ اسلا م نے تدریس کے پیشے کو پیغمبرانہ صفات کا حامل قرار دیا ہے۔ استاد شعور ذات تک رسائی دینے، بصیرت کے سفر میں رہنمائی مہیا کرنے اور باشعور معاشرہ تشکیل دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ المختصر ایک مدرس نظام تعلیم کا کلیدی کردار اور ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ شیخ مکتب ملّت کی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچا سکتا ہے۔ معلم دنیائے بصیرت کی وہ آنکھ ہے جس سے کسی قوم کے مستقبل کا نظارہ کیا جا سکتا ہے اور وہ معمارِ قوم ہے جو ملت کی فلک بوس علمی عمارت کھڑی کرتا ہے اور اس عمارت کی بنیاد رکھ کر دنیا میں قوم کاوقار بلند کرتا ہے۔
ایک استاد کی شخصیت کا پرتو اس کا کردارشاگرد کے لیے مشعل راہ ہے۔ کچھ اساتذہ ایسے ہوتے ہیں جو خود نمائی کے بجائے اپنے پیشے سے انصاف کرتے ہیں اوراپنے شاگردوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتے کرتے انہی کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔راقم نے جب گورنمنٹ پائیلٹ سکینڈری سکول اٹک شہر سے میڑک 1990 میں پاس کیاتو گورنمنٹ کالج اٹک میں داخلہ لیا۔ کالج میں جس پروفیسر نے سب سے زیادہ متاثر کیاوہ پروفیسرمحمد انور جلال ملک تھے۔کم و بیش تیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آ ج بھی یوں ہی لگتا ہے کہ شعبہ اُردو کا کمرہ ہے اور میں دوسری رُو میں بیٹھا ہوں اور پروفیسر انورجلال ملک کی جلالی آوازکانوں میں رس گھول رہی ہے۔فسٹ ائیر میں تعلیمی سال کے شروع ہوتے ہی میرا کلاس میں دوسرا یا تیسرا دن تھا، پروفیسرمحمد انور جلال ملک صاحب طلباء کی حاضری لے رہے تھے اور راقم اپنے ساتھی طالب علم کے ساتھ شرارتوں میں مگن تھا کہ اچانک ایک جلالی آواز کانوں میں گونجی ”شہزاد خاموشی اختیارکرو”!میں سکتے میں آ گیا کہ ابھی دو دن نہیں ہوئے اورپروفیسر میرے نام سے واقف بھی ہوگئے؟ وہ دن اورآج کا د ن ہے پھر کبھی ان کے سامنے اُونچی آواز میں بات نہ کرسکا۔ دوسری اہم بات جس کا اس تحریر سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ذکر کرنا میرے لیے بہت اہم ہے کہ پروفیسر انورجلال ملک ان خوش لباس اساتذہ میں سے ایک تھے جنکی نفاست پسندی، جامہ زیبی اور رکھ رکھاؤان کی شخصیت سے مترشح تھی۔ میں نے دوسال کالج میں گزارے،کبھی پروفیسر صاحب کو سفاری سوٹ یا پینٹ کورٹ کے علاوہ کوئی دیگر لباس پہنے کالج آتے نہ دیکھا۔
میری کتاب” کمرہ نمبر ایک سو نو ”کے محرک بھی پروفیسرمحمد انورجلال ملک صاحب ہی تھے۔ جب ناچیز نے ڈرتے ڈرتے اپنی کتاب کا مسودہ انہیں بھجوایا کہ اگریہ معیارپر پورا نہ اتر سکا تو استاد محترم سے نہ صرف بے عزت ہونا ہے بلکہ ان سے آنکھ ملانا بھی مشکل ہو گا۔ لیکن جب کچھ عرصے بعد پروفیسر صاحب کی اچانک کال آئی کہ انہوں نے میری کتاب کا دیباچہ لکھ بھیجا ہے اور ساتھ ستائش بھی کی کہ کتاب چھپنے لائق ہے اور اسے عمدہ چھپوانا۔پھر تو جیسے میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔الحمدللہ استاد محترم کی مہربانی سے2017ء میں میرے کالموں کی کتاب استاد محترم ہی کی خواہش اور قیمتی مشوروں کے مطابق منصہ شہود پر آئی۔پروفیسر انور جلال ملک صاحب کے جس بھی شاگرد سے میرا ملنا ہوا اسے استاد محترم کی تعریف و توصیف کرتے ہی پایا۔ہر شاگرد نے اپنی زندگی بدلے جانے کا سبب پروفیسر انورجلال ملک کو ہی قرار دیا۔ اس کی وجہ استاد محترم کا اپنے شاگروں سے بغض و حسّد سے پاک یکساں سلوک، قریبی تعلق، ان پر بے تہاشہ محنت اور حوصلہ افزائی تھی۔ انہوں نے ساری زندگی پڑھاتے گزار دی لیکن کبھی خود نمائی کی کوشش نہ کی حالانکہ ان کا ذاتی پرنٹنگ پریس بھی تھا۔
کہتے ہیں کہ عقل اور کتاب جتنی دیر سے آئے اتنا ہی اثر رکھتی ہے۔میرے سامنے استاد محترم کا افسانوں کا مجموعہ ”صبح کا انتظار”پڑا ہے جسے میں نے خرید کر پڑھا ہے۔اس کتاب کے منظر عام پر لانے میں یوں تو استاد محترم کے کئی شاگردوں اور دوستوں کا اصرار رہا لیکن عملی طور پر اس کتاب کی اشاعت میں پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد صاحب کا کردار نمایاں ہے جنہوں نے استاد محترم کے 1966 سے لکھے جانے والے افسانوں کو عرق ریزی سے اکٹھا کر کے کتابی شکل میں تشکیل دیا کیونکہ استاد محترم کتاب سے زیادہ اپنے شاگردوں کی تربیت پر یقین رکھتے ہیں۔اپریل میں شائع ہونے والے اس افسانوی مجموعے کو سرمد اکادمی نے شائع کیا جو اس کتاب کی ناشر ہے۔256 صفحات پر مشتمل اس خوبصورت افسانوی مجموعے کے لیے عمدہ کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے۔کتاب کا بیک فلیپ معروف افسانہ نگار اور دانش ورپروفیسر وقار بن الٰہی نے تحریر کیا ہے جوکہ استاد محترم کے استاد بھی تھے۔ وہ یوں رقم طراز ہیں کہ ”صبح کا انتظار’ اٹک کے ایک باہوش لکھاری اور اٹک کالج ہی کے فن کار محمد انور جلال کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جس میں بارہ افسانے شامل اشاعت ہیں۔
انور جلال کا افسانہ (داغِ ناتمامی) خاصے کی چیز اور متاثر کرنے والا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کردارنگاری کی عمدہ مثال ہے۔ وہ تحریر یں اثر آفرینی میں سب سے آگے ہیں جن میں ان کے ذاتی اور خاندانی حالات درج ہیں۔ اس مجموعے میں شامل کوئی بھی تحریر لے لیں ہر ایک میں مصنف کی ذات ملوث محسوس ہوتی ہے”۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں ”کتاب میں شامل تحریروں کو پڑھنے کے بعد بہت دُکھ ہوا کہ انورجلال نے باقاعدہ نہیں لکھا، اگر وہ لکھتے تو ان کے قلم سے یقینا کئی قابل قدر تحریر یں وجود میں آتیں ”۔
پیش گفتارمیں پروفیسر محمد انورجلال ملک لکھتے ہیں کہ ”یہ افسانے میں نے 1966سے تصنیف کرنے شروع کیے، ان کی ایک خاصیت ضرور ہے کہ تہہ میں موضوعات حقیقی ہیں، جن پر کہانی کی عمارت اُٹھائی گئی ہے۔میرا مزاج عجیب تھا کہ بہت زیادہ چھپنے چھپانے سے بالکل رغبت نہ تھی۔ جو بھی کام کرتا اسے کامیاب بنانے کے لیے پوری قوت صرف کر دیتا۔ جب میں کالج میگزین(مشعل) کا انچارج بنا تو بے حد محنت کی۔ طلبہ و طالبات کی تحریریں سنوارتے اور ان کی نوک پلک بہتر بناتے اکثر اوقات ایک نئی تحریر بن جاتی، جو ظاہرہے طلبہ کے نام ہی سے اشاعت پذیر ہوتی”۔آگے چل کر دوسری جگہ لکھتے ہیں ”اپنی پینتیس سالہ تدریسی زندگی میں،میں نے اگر کوئی کام کیا ہے تو بس یہی ہے کہ اپنے طالب علموں کے دلوں میں اپنی مستقل جگہ بنائی ہے۔ پوری زندگی یہ کوشش رہی کہ طالب عملوں کو صرف تعلیم نہ دی جائے بلکہ ان کی تربیت بھی کئی جائے۔میں نے ان کی بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ مجھے حضرت علیٰ کرم اللہ وجہہ کا قول یاد آتا ہے:اچھے کام کرو اور تھوڑی سی بھلائی کو بھی حقیر نہ جانو، کیونکہ چھوٹی سی نیکی بھی بڑی اور تھوڑی سی بھلائی بھی بہت ہے۔یہی اطمینانِ قلب میری زندگی کا حاصل ہے کہ میرے شاگرد اُن دنوں کو نہیں بھولے، جب میرا اُن سے رشتہ استوار ہوا تھا۔ آج بھی میر ی باتیں، اُن کی روح کو گدگداتی رہتی ہیں، جواباً اُن کی دعائیں مجھے پہنچتی رہتی ہیں۔
سچ میں لپٹی ان کہانیوں کے عنوان کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد یوں رقم طراز ہیں۔”پروفیسر محمد انور جلال کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل گورنمنٹ کالج، کیمبل پور کے عظیم الشان درس گاہ میں ہوئی۔ چھوٹے سے قصبہ نما شہر کا یہ ادارہ اُس وقت علم و فضل کے کئی چراغوں سے فروزاں تھا۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق، پروفیسر محمد عثمان، شریف کنجاہی، اشفاق علی خان، قاضی محمد زاہد الحسینی، فضل احمد قریشی، منیر احمد شیخ، ڈاکٹر سعد اللہ کلیم، وقار بن الہٰی، ماجد صدیقی، کمانڈر ظہور احمد،نذر صابری اور پیر آلِ مزمل ایسی علم و ادب کی ممتاز شخصیات اس درس گاہ سے وابستہ تھیں اور دور و نزدیک کے تشنگانِ علم ان چشموں سے سیراب ہوتے رہے۔جناب انور جلال ملک صاحب نے انہی عظیم اساتذہ سے کسبِ فیض کیا اور پھر اورینٹل کالج، لاہور جا کر ایم اے اُردو کی تکمیل کی۔یہاں بھی انہیں ڈاکٹر سید عبداللہ اور سید وقار عظیم ایسے بلند اقبال اور مخلص اساتذہ کی سرپرستی اور شفقت میسر آئی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ان کی خوش نصیبی نے انہیں اپنی ہی مادر علمی میں تدریس کے منصب کے لیے منتخب کیا گیا اور جس کو اللہ تبارک تعالی نے ہم جیسے کج فہموں کی رہنمائی کے لئے چن لیا تھا”۔
آج اس عظیم شخصیت پر لکھتے ہوئے تعریف و توصیف کے لئے الفاظ نہیں مل رہے اور ابھی تک ”صبح کا انتظار” کرتے کرتے کج لفظی تبصرے پر قناعت کرنا پڑ رہی ہے۔اللہ پاک سے د عا ہے کہ و ہ ا ستاد محترم کو صحت و سلامتی کے ساتھ ایمان و ایقان کی دولت سمیت زندگی کا باقی حصہ گزارنے کی توفیق عطا فرمائیں اور اس کا سایہ عاطفت ہم پرتادیر قائم و دائم رہے۔