پاکستان کے شمالی علاقے قدرتی حسن سے مالا مال تو ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ نہایت دلچسپ تفریح کا مرکز بھی۔میں لاہور سے سیدھا بحرین پہنچی جہاں ہم نے رات کو پڑاؤ کیا۔بہت سوچ سمجھ کے ایک ایسے ہوٹل میں رکے جو دریائے سوات کے اوپر تھا۔مگر کچھ دیر بعد ہی ہمیں احساس ہوا کہ ہمارا یہ فیصلہ غلط تھا۔جیسے جیسے رات بڑھ رہی تھی۔دریائے سوات کا شور بھی بڑھا تھا۔پانی کا لیول بھی اوپر آ رہا تھا۔یہاں تک کہ ہمیں محسوس ہو رہا تھا کہ پانی گھر کی کھڑکیوں کو چھو رہا ہے۔اللہ اللہ کر کے رات گزاری۔اور صبح ناشتہ کرکے اگلے سفر کے بارے میں کچھ انفارمیشن لی اور نکل پڑے۔ بحرین سے کالام کی طرف جائے تو خوبصورت مقام لائی کوٹ آتا ہے اس وادی کا نظارہ بہت ہی شاندار ہے دریا کے اس پار ایک خوبصورت آبشار ہے جس کو ڈولی آبشار کہتے ہیں آبشار کے قریب جانے کے لیے آپ لوگوں کو ڈولی میں بیٹھ کر جانا پڑتا ہے۔
بحرین سے نکلے تو کچھ فاصلے پر لائک کوٹ آتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لاء کوٹ میں دو پتھر بہت مشہور ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دو پتھر صدیوں سے ایسے ہی مٹی میں پیوست ہیں۔یہاں آئے دن سیلاب اور زلزلہ آتا رہتا ہے مگر یہ پتھر ایسے ہی رہتے ہیں۔اسی لئے یہ قدرتی پتھر کے نام سے اس علاقے میں مشہور ہیں۔ہم کچھ دیر وہاں رکے بے ساختہ زبان سے سبخان اللہ کی تسبیح جاری ہوتی رہی۔پھر ہم کالام کے لئے روانہ ہوگئے اور رات کالام میں رکے اور اگلے دن مہنڈنڈ جھیل کی طرف روانہ ہوگئے۔کالام سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جھیل مہوڈنڈ میں مچھلیوں کی بہتات ہے اور اسی لئے اسے مہوڈنڈ یعنی مچھلیوں والی جھیل کہا جاتا ہے۔ تقریباً دو کلو میٹر لمبی اور 1.2 کلو میٹر چوڑی جھیل کشتی رانی کے لئے بھی بہت مشہور ہے۔ 9400 فٹ بلندی ہونے کے باوجود جھیل پر سردی کا احساس نہیں ہوا۔
جھیلی کی خوبصورتی ناقابل فراموش تھی۔مگر اس کا رستہ نہایت خوبصورت اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔جیپ کا سفر کچھ دشوار ضرور ہے۔مگر راستے کے نظارے نہایت دلچسپ تھے۔راستے میں اوشو کا جنگل تھا۔بل کھاتے راستے اور دونوں اطراف لمبے لمبے درخت۔
راستے میں ایک بہت ہی خوبصورت نظارہ جس کو دیکھ کر بے ساختا پھر زبان سے سبحان اللہ جاری ہوگیا۔درختوں کے تنوں سے اللہ کا نام لکھا ہوا تھا جو پروردگار کی کبریائی کی حمدوثنا کی ایک نشانی تھی۔یہ نہایت دلچسپ منظر تھا۔جس کی تصویر میں آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کر رہی ہوں۔حقیقت یہی ہے کہ ہم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائیں گے۔
ایک اور اہم دلچسپ جگہ مہوڈنڈ جھیل کے رستے میں ایک چشمہ آتا ہے۔جو”آب شفاء ”کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ بہت پہلے آس پاس کے علاقوں میں ایک بزرگ رہتے تھے۔ وہ ایک بار شدید بیمار ہو گئے۔ بہت علاج کئے مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ ایک رات عشاء کی نماز میں بارگاہ الٰہی میں رو رو کر اپنی صحت یابی کے لئے دعا کی۔ کہا جاتا ہے کہ اسی رات ان کو خواب میں بشارت ہوئی کہ وہ اس چشمے کا پانی جا کر پیئں۔ تبھی سے اس چشمے کا نام آب شفاء پڑ گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق جو شخص بھی دل میں کوئی وہم لائے بغیر وہ پانی پیتا ہے، اسے شفاء ملتی ہے۔ جبکہ بہت سے لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ چشمہ چونکہ بلند و بالا پہاڑوں سے بہتا ہوا نیچے آتا ہے، تو راستے میں
آنے والی مختلف جڑی بوٹیوں کے اثرات بھی اپنے ساتھ نیچے تک لے آتا ہے اس لئے اس چشمے کے پانی میں شفاء ہے۔ وہاں سے گزرنے والے بہت سے لوگ رک کر اس چشمے سے پانی پی بھی رہے تھے اور اپنے ساتھ بوتلوں میں پانی بھر کر بھی لے جا رہے تھے۔میں بھی وہاں سے دو بوتلیں پانی کی بھر لائی۔یہ تمام مناظر میرے لئے بہت ہی دلچسپ اور انوکھے تھے۔