ہم ہزارے وال کسی پیارے کو کسی غلطی پر ٹوکتے ہیں تو کہتے ہیں نہ کرسو جی یہاں بھی کچھ صورت حال ایسی ہے جو بھی لندن براستہ جدہ گیا وہ ایسا ہی ہو گیا ۔الطاف حسین نوے کی دہائی میں جدہ آیا ایک دو ماہ رہا وہاں سے لندن پہنچ گیا اور پھر ملک کے بارے جو ہذیان بکتا رہا وہ آپ کے سامنے ہے۔ نواز شریف کے اس بیان نے ملک کی جڑیں ہلا کے رکھ دی ہیں وہ راز جو راز ہی رہنے چاہئیں تھے نوز شریف نے اگلنے شروع کر دئے ہیں ۔آج حقیقت میں اگر آپ تقابل کریں تو نواز شریف کی یہ باتیں ملک کے لیے مصیبت بن سکتی ہیں کل سے بھارتی میڈیا اس کو بنیاد بنا کر پاکستان آرمی اور پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کو ہدف بنا رہا ہے ۔کیا یہ صرف اپنی کارکردگی کا اظہار ہے یا پاکستان کو کا بازو مروڑنے کی کوشش؟ کیا نواز شریف نے ملک کی اس لاجواب ٹیکنالوجی جس نے مشکل وقت میں ایٹمی ہتھیار لے کر جانا ہے اسے نشانے پر لیا ہے ۔یہ بھولا اتنا بھی بھولا نہیں ہے اس سے پہلے بھی یہ سر عام اعتراف کر چکا ہے کہ ہم نے ممبئی دھماکے کیے ۔کل بھوشن کیس میں بھارتی وکیل نے عالمی عدالت میں یہ دلیل پیش کی کہ پاکستان تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف نے یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کراتا ہے میں انڈین چینیلز ہر اکثر آتا رہتا ہوں وہاں مجھے جنرل بخشی میجر گورو آریہ جنرل سنہا جیسے لوگوں سے بحث کرنا پڑتی ہے تو وہ بھی یہی دلیل دیتے ہیں کہ نواز شریف نے خود تسلیم کیا ہے کہ ممبئی اٹیکس میں پاکستان ملوث ہے پاکستان کے ایک معروف چینل اور اس کے اینکر بھی اسی طرح کی حرکت کرتے رہتے ہیں ایک ایسا شخص جس کا صحافت سے صرف کاروبار کی حد تک تک تعلق ہے وہ صحافیوں کو بلیک میل کر کے آئے روز اپنی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔جرم کچھ اور مطالبے اور ۔ یہ لوگ بھی پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔
میاں نواز شریف کے بارے میں کراچی کے ایک دوست کا کہنا ہے کہ یہی الفاظ الطاف حسین نے کہے تو وہ غدار ٹھہرا اور کسی پنجابی نے یہ تک کہہ دیا کہ ہم بھی اسی رب کو پوجتے ہیں جس کو بھارتی پوجتے ہیں ۔ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں جو آپ بھی کھاتے ہیں ۔یہ بات برسوں پہلے میاں نواز شریف نے سیفما کے ایک اجلاس میں بھارتی سر زمین پر کہی تھی ۔ اور پنجابی نے الطاف سے بڑھ کر گالی دی یے اب لوگ کیوں خاموش ہیں ۔سندھیوں نے بھی بھٹو کی پھانسی پر کچھ ایسی ہی باتیں کی تھیں۔
آپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بیان ایک عام سا بیان ہے تو شائد آپ غلط فہمی کا شکار ہیں یہ موٹر وے اور بی آر ٹی کی بات نہیں کہ نواز شریف نے موٹر وے بنا لی اور ہم بی آر ٹی نہیں بناسکے ۔یہ کروز میزائل کی بات ہے جو بلوچستان میں گرا تھا اور میاں نواز شریف کے بقول ہم نے اس کی کاپی کر لی ۔یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے
قارئین محترم وہ سچ جو اپنی ماں کی چادر لے اڑے اس سچ پر بھی لعنت ۔ہمارے ایک دوست ہیں روء ف طاہر جو مدت سے اسیر زلف نواز ہیں کہنے لگے ہم ایک بار امریکہ گئے ۔جناب یہ وہ دور تھا جب صحافی باہر کے ملکوں کا دورہ ایسے کرتے تھے جیسے لاہور سے کامونکی جانا۔یہ بھی گئے کہنے لگے وہاں پہنچے تو امریکی ترجمان نے کہا امریکہ سچ کے ساتھ کھڑا ہے لیکن سچ وہ یے جس سے امریکہ کا مفاد وابستہ ہے ۔۔
یہ اگر سچ بھی یے تو کیسا سچ ہے؟ ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سے پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی خطرے میں پڑ سکتی ہے ؟امریکہ پہلے ہم پر الزام لگا رہا ہے کہ ہم نے ایبٹ آباد میں امریکی ہیلی کاپٹر کے ملبے تک چین کو رسائی دی یے۔
آل پارٹیز کانفرنس کے نتائیج آنا شروع ہو گئے ہیں مولانا فضل الرحمن نے بھی پاکستان کی فوج کو للکارا ہے اور کہا ہے کہ ہم آپ کا وہ حشر کریں گے جو افغانستان میں ہم نے امریکہ کا کیا ۔پہلی بات یہ ہے کہ یہ شخص جھوٹ کا پہاڑ ہے افغانستان میں جو طالبان لڑے وہ جامعہ حقانیہ سے فارغ التحصیل تھے اور وہ سب کے سب مولانا سمیع الحق اور جنرل حمید گل کی سوچ کے پیروکار تھے ۔کسی کو شک ہو تو جنرل حمید گل کے جنازے کو دیکھ لے کہ طالبان کس کے شیدائی تھے ۔یہ جھوٹ کا عالیشان پہاڑ اس وقت جنرل مشرف سے پینگیں بڑھا رہا تھا جب طالبان امریکہ کو ناکوں چنے چبوا رہے تھے ۔میں حیران ہوں کس طرح پائوں جوڑ کر یہ بندہ ء خدا غلط بیانی کرتا ہے میڈن البرائٹ سے اقتدار کی بھیک مانگنے والا یہ مولانا اقتدار سے کیا باہر ہوا مچھلی کی مانند تڑپ رہا ہے ۔اس کے منہ سے کٹے والی انگلی کیا نکلی یہ ہورا خانوادہ ہذیان بکنے پر معمور ہو گیا ہے ۔دوسری جانب ن لیگ کا بڑا اس سے سے بھی دو ہاتھ آگے نکل کر پاکستان کی فوج پر حملہ اور ہو گیا ہے ۔وسطی پنجاب سے اس قسم کی آواز کبھی بھی نہیں اٹھی پنجاب کے وہ فوجی علاقے جہاں سے فوج بھرتی ہوتی ہے اب وہاں سے بھی فوج کے خلاف آواز اٹھنا شروع ہو گئی ہے بلوچستان کی تو بات چھوڑیں اب دیکھ لیجئے گا یہ لوگ پنجاب کے اس علاقے سے بھی بندوق اٹھائیں گے۔
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہزارہ میں بھی یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ درست ہے ۔اگر یہ بات ہے تو پھر تیار رہئے بم دھماکوں کی ایک نئی لہر کے لیے کہ جو شخص پاکستان کے قومی راز اگل رہا ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔
پیپلز پارٹی کے لیے بہت بڑا چانس ہے اس موقع پر اگر وہ نواز شریف اور ملا فضل کی سوچ کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو وہ چاروں صوبوں کی زنجیر بن سکتی ہے اور اس کا وہ دور واپس لوٹ سکتا ہے۔
اس وقت عوام مہنگائی کی وجہ سے تنگ ہیں ۔اوپر سے ایسے ایسے مشیر موجود ہیں جو رسد کے لیے ادویہ کی قیمتیں بڑھانے کے فلسفے کے پرچارک ہیں ۔یہ وہ فلسفہ ان لوگوں کے لیے تو مناسب ہے جن کی کوٹھی میں دانے ہیں ۔لیکن بھوک ننگ افلاس سے مرے ہوئے لوگوں کو یہ فلسفہ بلکل بھی نہیں بھاتا۔لوگ سرکاری ہسپتالوں میں اس آس پر جاتے ہیں کہ بچ گیا تو بچ گیا نہیں بچا تو خیر کوئی یہ تو نہیں کہے گا کہ علاج نہیں کرایا گیا ۔پرائیویٹ مہنگے ہسپتالوں اور سرکاری ہسپتالوں کے سٹینڈرڈ برابر ہونے میں ایک صدی درکار ہے ۔گرچہ پی ٹی آئی کی حکومت بڑی کوشش کر رہی ہے لیکن مہنگائی کا جن اگر قابو نہ پایا تو احتجاجی تحریکوں کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ایک چیز مہنگی ہوتی ہے اس کے اوپر فلسفی لوگ عجیب و غریب منطق لے کر آجاتے ہیں اور مشورہ بھی وہ لوگ دیتے ہیں جنہیں کبھی پی ٹی آئی کے آفس میں بھی نہیں دیکھا احتجاجی تحریکوں کی تو دور کی بات ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی مصنوعی ہے تو جناب یہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کس کام کی۔بزدار صاحب سب اچھا نہیں ہے ۔ایک جانب جناب وزیر اعظم نے پولیس ڈی سی اے سی آزاد کئے ہوئے ہیں ہمارا ایم پی اے ایم این اے ان سے باتیں ایسے کرتے ہیں جیسے انگریز دور میں جی رہے ہوں ۔انہیں لگام دیں پولیس اور انتظامیہ پارٹی کو جواب دہ یوں بلدیات آ رہے ہیں انہیں ضلع ناظم میئر کے نیچےکریں ورنہ کارکنوں کا حال وہ ہو گا جو جہلم میں طاہر آصف کے ساتھ ہوا ۔گڈ گورننس کمیٹیاں تو بن گئیں لیکن ان بے چاروں کی سنتا کون ہے ۔ایسے میں پی ٹی آئی عوامی مقبولیت تیزی سے کھو رہی ہے ۔ایک بے چارہ عمران خان کدھر کدھر ٹکریں مارے۔
قارئین نواز شریف کے اس بیان پر قوم پریشان ہو گئی ہے۔لوگ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں کہ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ پاکستان کو مشکل میں ڈالے ۔
میاں صاحب اقتدار آنی جانی چیز ہے ملک ہو گا تو آپ کی نسل اس پر حکمرانی کرے گی ۔اگر خدا نخواستہ پاکستان سے میزائل ٹیکنالوجی چھین لی گئی تو یہ ایٹم بم کھوتی ریہڑی پر تو نہیں جائے گا ۔اپ کو اللہ میاں نے اقتدار دیا اب اس وقت آپ اپوزیشن کے اہم لیڈر ہیں قوم آپ کی جانب سے اس قسم کی بیانات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے ۔آپ مسلم لیگ کے ترجمان ہیں جس نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ملک حاصل کیا جس کی سوچ یہ تھی کہ بر صغیر میں یہ دو قومیں اکٹھا نہیں رہ سکتیں ۔حصول پاکستان کی جد وجہد میں دس لاکھ سے زیادہ جانیں گئیں گھر بار لٹے پھر یہ جا کر ملک ملا ۔اج پاکستان دنیا کی اہم طاقت ہے چلو یہ بھی مان لیا کہ آپ ہی نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت دی آپ نے ہی نے میزائل ٹیکنالوجی دی لیکن کیا آپ اپنے ہاتھوں سے اس طاقت کا خاتمہ چاہتے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہوا سانوں وی کھڈائو نیئں تے کھیڈ مچائو یعنی جب تک مجھے اقتدار نہیں دیا جاتا میں پاکستان نہیں چلنے دوں گا۔
جناب میاں صاحب ہم اناڑی سہی لیکن ہم نے کھلاڑیوں کا سوا ستیا ناس کر کے اقتدار لیا ہے 2018 کے انتحابات 1970 کے انتحابات سے بھی زیادہ شفاف تھے ۔حضور یہ 2013 والے نہیں تھے جس میں آپ دو تہائی اکثریت مانگ رہے تھے ۔کاش عمران خان میری مان لیتے میں نے سی ای سی کی میٹینگ میں کہا تھا کہ جناب وزیر اعظم طاقت کے ادارے بدل چکے ہیں لبیک کو لبیک کہیں ۔اج اگر تحریک لبیک ہمارے ساتھ ہوتی تو ہم بڑی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہوتے ۔ہم نے انہیں دینا ہی کیا تھا وزارت مذہبی امور اور دو چار اور ۔ہماری جان چھوٹ جاتی بلیک میلروں سے جو ہمارے ہو کر بھی ہمارے نہیں ہیں ۔ختم نبوت پر ہمیں کتنا ذلیل ہونا پڑا کم از کم ان قادیانی نواز بڑے منہ والوں سے تو جان چھوٹ جاتی ۔بے ڈھول مضحکہ خیز لوگوں سے جان چھوٹ جاتی جو بار بار آقائے نامدار کی توہین کرنے والوں کے ساتھی بنے علی محمد خان شہر یار آفریدی غلام سرور خان اعجاز چوہدری انجینیر افتخار جیسے لوگوں کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں ۔یعنی دکھ سہے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں ۔
ہم تو اندر ہی لڑ لڑ کر مر گئے ہیں ویسے نبی پاک کی ختم نبوت کے لیے لڑنے میں جو مزہ ہے وہ جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔
میاں صاحب آپ کے ساتھ اچھے دن گزرے ہیں2000 سے2002 تک ہم نے آمریت کے خلاف جنگ لڑی جدہ کی جیلیں گواہ ہیں کہ کس دلیری سے لڑی ۔ہم ایک ڈکٹیٹر کے خلاف تھے پوری فوج کے نہیں۔ آپ کو اوبرائے مدینہ میں بھی مشورہ دیا تھا کہ پوری فوج کو نشانہ نہ بنائیں آپ ابھی تک وہیں ہیں پرنالہ ادھر ہی ہے ۔۔گرچہ فوج کو ان علاقوں سے اب تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جہاں کے ہر گھر کا بیٹا فوج میں ہے لیکن اب بھی پاک فوج کو ہی لوگ ملک کا محافظ مانتے ہیں ۔اج بھی پاک فوج میں بھرتی کے اشتہارات کے بعد ہزاروں لوگ اس میں جانا چاہتے ہیں ۔ہچیس ہزار کے لیے نہیں لوگوں میں جذبہ ء جہاد ہے ۔مانی میرے پاس مزدور تھا دو سال میرے مکان پر کام کرتا رہا فوج میں بھرتی ہو گیا میں نے پوچھا یار مرنے جانا ہے کہنے لگا سر مرنا تو سب نے ہیں لیکن کبھی آپ نے غور کیا کہ ہماری موت اور بستر پر مرنے والے کی موت میں کتنا فرق ہوتا ہے۔
وہ مجھے بہت کچھ سمجھا گیا میں نے بھی اس دن سے تہیہ کر لیا کہ مانی کی طرح میں بھی لڑوں گا ۔میں اپنے قلم سے لڑوں گا ۔میں بھی تیر چلائوں گا میں بھی میزائل داغوں گا ۔ماں نے وہ بیٹا پیدا نہیں کیا جو سیاچین کے منفی پچاس درجے والی سردی میں اللہ اکبر کی صدا لگا کر سینے پر گولی کھاتا ہے اور میں وہی ہوں میرے ہاتھ میں گن نہیں قلم تو ہے گن کے ہجے کریں دو ہیں اور میرے تین ۔
نواز شریف صاحب رک جائیے اور جان لیجئے ہمارا آلو گوشت جھٹکے کا نہیں ہم بتوں کو پوجتے نہیں ہم بت شکن ہیں ۔صرف شاہراہ دستور پر بنی اس عمارت میں بیٹھنے کے لیے فوج کو گالی مت دیں۔