شعور تو اب مل رہا ہے پہلے تو الفاظ کے ذخیرے پر انحصار تھا اب تحریر مقصدکی سوچ سے خیر کا باعث بنے اس سوچ کے ساتھ حروف ابھرتے ہیں اللہ کے ہاں قبولیت کی دعا کے ساتھ ہر مسلمان کیلئے جو قرآن سے سنت کے علم سے دور ہیں اللہ ان پر اپنے قرآن کا فیضان کرے اس قرآن نے سمجھایا اختیار مل جانے پر یہ بے وقعت مٹی کا ڈھیر کیسی سفاکی دکھاتا ہے اور کیا کیا ظلم ڈھاتا ہے قرآن ترجمے سے پڑہنا کیوں ضروری ہے تا کہ اللہ کے دیے ہوئے اختیارات انکے استعمال اور زیادتی کی صورت میں اپنے انجام سے باخبر ہو جائے اللہ خاص ہے اسکی کتاب خاص ہے عام کیلئے نہیں اس کتاب کو کھولنے والوں کا چناؤ ہوتا ہے ہدایت شیرینی نہیں جو ہر ایک کو بانٹی جائۓ اخلاص نیت اور طلب اسکی بنیادی شرائط ہیں نیت کر لیجیے اور بچ جائیے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ سے امت کی خاطر شاندار کھوئے ماضی کو زندہ کرنے کیلیۓ اس کو ترجمے سے اپنی زبان میں پڑہنا ہے تمام قوانین جو بھول گئے ہیں انہیں یاد کرنا ہے دل سختی سے کیسے رکتا ہے زبان ظلم سے اور عمل حد سے بڑہنے سے کیسے رکتا ہے آئے روز قتل ڈکیتیاں بچوں کا قتل عام یہ سب کیا ہے؟ حالیہ بے رحمانہ واردات کا زخم ابھی رِس رہا ہے کہ ایک نئی خبر آگئی ایک اور بنت حوا کی خود کشی کے بعد ایک اور بس کا انتظار کرتی تعلیم کیلیۓ نکلی لڑکی کو چھ درندوں نےدرندگی کا نشانہ بنانے کے بعد پھینک دیا مرد جو محافظ ہے کمزور بچے کا عورت کا انہیں مرد کہنا مسلمان مرد کی توہین ہے یہ سب کیسے ہو گیا ؟ کیونکہ قرآن بند کرتے ہی ہم اپنے اصل سے فرائض سے لا علم ہوتے گئے اللہ کے خوف سے اسکی ذات کے جلال سے اور جرائم کی درندگی مظلوموں پر بڑہنے لگی قرآن سے یہ سب جرائم کیسے ٹھیک ہوں گے ؟ دلیل یہ ہے تئیس سال میں جاہل ان پڑھ اڑیل اور موٹے دماغ کے بدو اس قرآن سے یوں بدلے کہ دنیا پر اعلیٰ ترین اخلاقیات اور آداب کے ساتھ اسلام کا جھنڈا لہرا چکے کیوں؟ اس قرآن کو تئیس سال میں آہستہ آہستہ اتارا پہلے وحدانیت پھر رسالت آخرت حساب کتاب کا شعور دیا گیاٌ نفس کی تعمیر کا شعور ملا تو چناؤ کا اختیاردے دیا جنت بھی ہے اور جہنم بھی کیا لینا چاہتے ہو غفلت سے بھری زندگی دنیا کے خداوں کی پیروی میں ضائع کرنا چاہتے ہو اور آخرت میں ان ہی کی معیت میں آگ کا ایندھن بننا ہے یا ہمیشہ کی جنتیں آج دین کو فرقہ کرنے والے تو بہت ہیں ہر ایک نے خوب جی بھر کراپنے فرقے کوبڑہاوا دیا اس کو پیسے کے زور پر فاتح بنانے کے لئے اس قدر تلخیاں بڑہا کر نفرتیں پیدا کیں کہ اسلام کو مفتوح اور اور فرقہ فاتح بنا دیا اس ملک کے اہل اقتدار اللہ کے ہاں جوابدہ ہیں کسی بھی دور میں ریاست نے اس قرآن حدیث کے علم کو عام نہیں کیا اس کو غریب گھروں کے نادار بچوں کے لئے مصروفیت کے طور پر مدرسوں کا نام دے کر حکومت دین سے بری ا لذمہ ہو گئی اچھے معیاری تعلیمی اداروں جن کے طالبعلموں نے بیرون ملک سے واپسی پر اس ملک کو چلانا ہے ان کے لئے قرآن سنت صرف غریبوں کیلئے ہے نتیجہ لادینیت نے ملک کا راستہ دیکھ کر جہالت کی وہ اقسام متعارف کروائی ہیں کہ دنیا حیران ہے جرائم بھارتی درندگی کا مظہر اور سزا جب اسلامی ہو تو واویلا لہٰذا ہمیشہ محکوم حاکم سزا سے پیچھے ہٹ گئے روز ہوتی وارداتیں اور ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں کون ذمہ دار ہے؟ غریب کا بچہ اور بیٹی غربت کے سبب عوامی ٹرانسپورٹ ہی لے گا یا لے گی اور گھات لگائے اور ملزمان ہی ان پر حملہ آور ہو کر انکے تعلیمی خواب کے ساتھ ساتھ زندگی کو بھی توڑ پھوڑ کر دیتے ہیں یہ چھوٹے چھوٹے گینگ اور زیادہ بھیانک اور آزاد ہو گئے اہل اقتدار سو کیسے سکتے ہیں ؟ ملک بھر میں ہیجڑانہ جرائم کا احاطہ نہ کیا گیا تو عوام اب خود اٹھنے کو بیقرار ہے سوچیں میڈیا کو خبر مل گئی قارئین نے سن لی یا پڑھ لی کچھ دیر تاسف کیا پھر سب اپنے اپنے کام کاج پر لیکن ایک نظر اس گھر پے ڈالئے جہاں حادثہ ہوا ہے اب وہ ذلت آمیز پولیس کے تفتیشی عمل سے گزریں گے ایسے گھناؤنے اور غلیظ انداز میں مظلوم سے تفتیش کی جائے گی کہ مجرم تو سکون سے کہیں آرام کر رہا ہوگا یہاں روز روز پولیس کے پھیرے تھانے کچہری کے چکر اتنی ذلت آمیز باتیں کہ وہ لڑکی بھی کل والی بچی کی طرح پھندا ڈالنا پسند کرے گی پولیس کے تناظر میں ایک واقعہ یاد آیا ایک خاتون کو اکثر میں شعلہ جوالہ بنا دیکھا انکا کوئی مسئلہ لگتا تھا جسے وہ بیان نہیں کر سکتیں تھیں تو انداز گفتگو تلخ ہو گیا لگتا تھا کہیں کوی موقعہ ملے تو اندر کا زہر گھٹن ایک ہی بارانڈیل دیں ایک خاتون سے پوچھا پتہ چلا کہ گھر والوں سے جھگڑا کر کے ینگ ایج میں لو میرج کی تھی اور سب کچھ جو بتایا گیا فراڈ نکلا اس نے طلاق مانگی نہیں ملی تو خلع کیلئے عدالت سے رجوع کیا بس عدالت تک جانا تھا تو جیسے خرچے پر خرچے گھر والے الگ تنگ ایک پھانس تھی جیسے گلے میں چبھ گئی نہ نگل سکی نہ اگل سکی تفتیشی ٹیم نے ایسے ذلت آمیز سوالات کیے وہ زہر وہ غلاظت وہ ذلت ذہن میں بیٹھ گئی جس کا نتیجہ اب یہ زہر آلود الفاظ اور شعلے اگلتی زبان ہے جج کو وکیل کو بھائی باپ سمجھ کر گئی تھی وہاں انکا ایسا گھناؤنا اور مکروہ غلیظ چہرہ بد گمان کر گیا یاد رکھیں کوئی ترقیاتی قوم کسی لیکچرار کسی اخلاقیات کے ماہر سے آپکو مدد نہیں مل سکتی اس ملک کے گھناؤنے اور بد وضع نظام کو جرائم سے پاک کرنا ہے تو ہمیں خود کوشش کرنی ہوگی میرے پیارے نبیﷺ کی امت بچ جاؤ بچا لو یہ سب عارضی ہے چار دن کی زندگی ہے اور پھر قبر کا تاریک اندھیرا اسکو پُر نور بنا لو قرآن کھول کر اپنے شعبے میں اپنی ایماندارانہ ذمہ داریوں کا ادراک حاصل کریں یقین کریں اللہ کی رحمت آپکو کبھی مایوس نہیں کرے گی جتنی بد دیانتی جتنے ظلم جتنے جرائم کئے وہ رحمٰن وہ رحیم منتظر ہے آئیے جھکیں اسکے آگے جو مجھے آپ کو کسی زمینی خدا کے آگے جھکنے نہیں دے گا یہی امت کا عروج ہے بحالی عروج کا سفر حکومت سے نہیں فرد واحد کے سچے عمل سے شروع ہو گا جانتے ہیں کب؟ جب گھر میں موجود اس عظیم دلوں کو نظام کو خسارے کو بدل کر نفع بنانے والی کتاب کو ترجمے سے پڑہیں گے آئیے ذرا سا ہاتھ بڑہائیں قرآن کھولیں اور ترجمے سے پڑہیں خود کو درست کریں اور تب اپنے گھر کے در و دیوار سے لپٹی وہ شیطانی نحوست دکھائی دے گی جسے ہم نے بد دیانتی سے خوشحالی کا نام دے رکھا ہے تائب ہوں اور جھک کر توبہ کریں ابتداء کر لیں اس قرآن سے اپنی نئی زندگی کا طالبعلم بن جائیے علم نافع حاصل کر کے اس امت کو اپنے عمل سے خیر بانٹیں کہ بڑے ہی مفلوک الحال ہیں اچھائیوں میں اس ملک کی ذہنی درندگی ختم ہوگی حاکم مرد ہوگا معاملات معاشرت اس کے ہاتھ میں ہوں گے عورت اپنے بچوں کے ساتھ تربیت کرتے ہوئے انہیں عروج اور بحالی عروج کا مطلب سمجھا کر اپنا منصب عظیم پھر سے حاصل کرے گی وہ منصب جو عورت کو جنت کی صورت دیا گیا ملک کو اس کے نظام کو اس کے دستور کو اسکے معاشرے کو کوئی حکومت اکیلی نہیں بدل سکتی حالات اور جرائم جیسے گھٹی میں ڈال رہے ہیں آئیے بطور قوم بطور امت اپنی حفاظت کے خود ذمہ دار بنیں اپنے بچوں کو لاپرواہی سے کسی قریبی دوکان پر بھیج کر عمر بھر کے آنسو نہ بہائیں بیٹیوں کو ماڈرن ازم کی بنیاد پر نہیں ہمارے ماضی کی طرح پالیں جن پر بھائی باپ کا کڑا پہرہ تھا کسی کی مجال نہ تھی کہ آنکھ اٹھا کر دیکھتا یہ سب ہمیں کرنا ہے اور ماضی کے کامیاب طریقے ہمیں وہ بند الکتاب کھلے گی تو احسن انداز سے سمجھائے گی کھول لیجیۓ اور راز عروج بحالی اسلام پا لیجیے