مذہب میں سے انسانیت اور خدمت نکال دی جائے تو صرف عبادت رہ جاتی ہے اور محض عبادت کیلئیے پروردگار کے پاس فرشتوں کی کمی نہیں ہے۔انسان کو اللہ پاک نے اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا اور انسانیت کادرس مختلف انبیاء اور رسل کے ذریعے بتاتے رہے .بہرحال مذہب اسلام میں حقوق اللہ کی جگہ حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا ہے۔جبکہ حقوق اللہ معاف ہو جائیں گے لیکن حقوق العباد کبھی معاف نہیں ہوں گے۔۔ بحثیت مسلمان اور انسان ہمارا ایک دوسرے پر حق ہے۔
یہ بات توبالکل واضح ہے کہ اس دنیا میں ہر شخص اپنے ذاتی مفاد کی خاطر سردھڑ کی بازی لگا دیتا ہے اور صرف اپنی ذات کیلئے مشکل سے مشکل کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کبھی کبھار ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت جمع کرتا ہے. اللہ کے بندوں سے پیار اور محبت کے بجائے انہیں اپنی خودغرضی کی بھٹی میں ڈال دیتا ہے، اور یقین کریں ایسے لوگ کبھی بھی حقیقی مسرت اور خوشی نہیں حاصل کر پاتے ہیں۔
اس کے برعکس کچھ لوگ دنیا میں ایسے بھی ہیں جو اپنے ذاتی فائدوں کو پس پشت ڈال کر دوسروں کے لئے جیتے ہیں. ملک و قوم کی بہتری اور بھلائی کے لئے اپنی زندگی وقف کردیتے ہیں. ایسے ہی لوگ ہیں جو دنیا میں ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید رہتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ آپ کے پاس لامحدود وسائل ہوں تبھی آپ دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایدھی صاحب کی مثال موجود ہے۔ ایدھی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دو درخشان ستارے پنجاب کے افق پر اپنی آب و تاب سے چمک رہے ہیں اور سینکڑوں گھروں کی امید کا چراغ بنے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی بہت بڑے اینٹوپرینیور نہیں نہ ہی کوئی بہت بڑے بزنس مین ہیں بلکہ ایک معمولی رکشہ ڈرائیور اور ان کی بیگم ہیں جو کہ غیر معمولی صلاحیتیں رکھتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اس خوبصورت جوڑے کو اولاد کی نعمت سے محروم رکھا لیکن انہوں نے اس کمی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ ایک نئی امید اور جہت کے ساتھ اٹھے۔انہوں نے اس کمی کو پسِ پشت ڈال کر دوسروں کے بچوں کو پڑھانے ، سکھانے اور ہنر دینے کا ٹھیکہ اٹھا لیا۔ اس کام کیلئے انہیں خود اپنی جیب پر کس قدر بار برداشت کرنا پڑا یہ سب وہی جان سکتے ہیں لیکن انہوں نے اس پر بھی افف تک نہیں کی۔ بلکہ زیادہ محنت سے شب و روز رکشہ کی آمدن سے ضروری سامان اکٹھا کیا۔
مجھے ایک بات جو سب سے زیادہ خوبصورت اور قابلِ دید لگی کہ جاوید صاحب کی مسز نے ایک فلاحی ادارے کا خواب دیکھا اور ان کے شوہر نے اس کام کی تکمیل کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ اپنے محدود وسائل کے باوجود ممتا کی تسکین کیلئے اپنی بیوی کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔ اپنی بے اولادی کو کسی طور پر بھی اپنی کمزوری نہیں بننے دیا۔ہمارے معاشرہ کا المیہ ہے کہ کبھی بھی یہ گاڑی کے دو پہیے ایک ہی منشور پر عمل پیرا نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے مزاج اور سوچ کو پذیرائی دی جاتی ہے۔
طارق جاویداور ان کی بیگم نے انسانیت کی خدمت کا فریضہ اٹھایا ہے جس میں انہیں آہستہ آہستہ سہی مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ طارق صاحب اور ان کی مسز کو ملکی اور غیر ملکی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کے مطابق انہیں اس کام میں پہلے پہل بہت سے دشوار گزار راہوں پر سے گزرنا پڑا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ جدوجہدِ مسلسل پر کاربند رہے۔
اس کام میں اب بہت سے لوگوں نے تدریس کیلئے اپنی خدمات بلا معاوضہ پیش کر رکھی ہیں۔ میسو گرومنگ سسٹم میں عورتوں ، بچوں اور بچیوں کو یکساں طور پر ہنر سکھایا جاتا ہے۔بہت سی خواتین سلائی کا کام سیکھ کر اب اپنے گھر کیلئے باعزت روزگار کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ بہرحال یہ سب ان دونوں فرشتہ صفت انسانوں کی بدولت ممکن ہوا ہے۔
اتنے عظیم ہیں وہ لوگ جن کا جینا مرنا دوسروں کے لئے ہے ,جو اپنے ذاتی فائدے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوسروں کی بہتری کے لئے کام کرتے ہیں. اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی بندگی کا حق ادا کرنا ضروری ہے۔ نماز ,روزہ, حج ,زکوٰةحقوق اللہ کے ضمن میں آتے ہیں. اس کے برعکس خدا کے بندوں کی دلجوئی کرنا، انکے دکھ درد میں شریک ہونا، انکے حقوق ادا کرناا اور انکی خدمت کرنا اللہ کو راضی کرنا ہے اور یہ عبادت سے بھی افضل ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ انہیں مزید ہمت اور حو صلہ دے اور مخیر حضرات سے اپیل بھی ہے کہ ان کی اس کاوش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ یہ ملک کے اور علاقوں میں بھی اپنی خدمات سر انجام دے سکیں۔کیونکہ یہ ان کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ اس کام کو مزید علاقوں تک وسعت دیں۔ اللہ پاک ان کا حامی و ناصر ہو اور انہیں یونہی استقامت عطا فرمائے آمین۔