خوددار زندگی کس کی خواہش نہیں ہوتی؟۔ معاشرے میں مقام کون نہیں چاہتا؟۔ خوداعتمادی کی دولت سے کون مالامال نہیں ہونا چاہتا؟۔ کون چاہتا ہے کہ ساری زندگی اس کا استحصال ہوتا رہے؟۔ کون چاہے گا کہ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بننے کی بجائے ان پر معاشی بوجھ بن جائے؟۔ یقینا خودکفیل زندگی، سنہرا مستقبل اور معاشی تندرستی ہر فرد کا خواب ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی افراد اس خواب کی تکمیل نہیں کر پاتے۔ وطن عزیز 65 فیصد سے زائد نوجوان آبادی پر مشتمل ملک ہے۔ یہ نوجوان درحقیقت افرادی قوت ہیں لیکن نہ تو انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع دئیے گئے اور نہ ہی ان کی ذہانت اور تعلیم سے استفادہ کیا گیا۔ ہر سال کتنے ہی نوجوان تعلیمی اداروں سے فراغت پاتے ہی روزگار کے حصول کی فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
زیادہ تر نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو اپنی دلچسپی سے وابستہ ملازمتیں حاصل نہیں کر پاتے اور یا تو دیار غیر منتقل ہو جاتے ہیں یا پھر مجبوراً چھوٹی موٹی ملازمتوں میں خود کو ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔ یوں ان کا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے۔ دوسری جانب ملازمت دینے والے بھی افرد کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کم معاوضوں پر ملازمتیں دیتے ہیں جس سے گزارہ کرناناممکن ہوتا ہے۔ اس استحصال پر لوگوں کا مایوسی کا شکار ہونا ایک فطری امر ہے۔ یہ مایوسی انہیں بلا خوف و خطر جرائم کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے جس پر انہیں کوئی پشیمانی بھی نہیں ہوتی۔
پنجاب حکومت نے اس امر کا احساس کیا ہے کہ نوجوانوں کو معاشی طور پر مضبوط اور خودکفیل بنانا ہے۔ انہیں نوکری لینے والا نہیں، دینے والا کرنا ہے۔ موجودہ ملکی قیادت اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ نوجوانوں پر ملکی معیشت کا انحصار ہے لیکن مواقعوں، وسائل یا سرمایہ کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ ملک میں متوسط طبقے کی تعداد امیروں سے زیادہ ہے، تو پھر مٹھی بھر سرمایہ دار کیوں عام آدمی پر فوقیت حاصل کرے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ متوسط طبقے کے بچے کے پاس ہنر، تعلیم، ذہانت ہے، سمجھ بوجھ اور آگے بڑھنے کا جذبہ ہے، مگر سرمایہ نہیں ہے تو اسے استفادہ کا موقع دیا جانا اس کا حق ہے۔ حکومت اس امر پر یقین رکھتی ہے کہ نوجوانوں پر انویسٹمنٹ کرنے سے ہی تبدیلی آتی ہے۔
اسی ضمن میں عام آدمی کو خودمختار بنانے اور ایکسیس ٹو کیپیٹل دینے کیلئے ”پنجاب روزگار سکیم“ کا اجراء کیا گیا ہے۔ بنک آف پنجاب کے اشتراک سے 30 ارب روپے کی اس قرضہ سکیم سے 16 لاکھ سے زائد لوگوں کو باعزت روزگار کے مواقع میسر آ سکے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس پراجیکٹ سے استفادہ کے بعد پنجاب روزگار سکیم کی بدولت اپنا من پسند کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے۔ یوں صنعت کو فروغ ملے گا، ملکی معیشت بہتر ہوگی اور غربت میں کمی واقع ہوگی۔
آپ کی عمر 20 سے 50 سال کے درمیان ہے اور آپ میں پوٹینشل ہے۔ آپ کو کسی ہنر پر دسترس حاصل ہے۔ آپ کے ذہن میں کوئی کاروباری پلان موجود ہے اور آپ کوئی سٹیپ لینا چاہتے ہیں لیکن آپ کے پاس اس قدر وسائل نہیں، آپ اپنی صنعت یا پہلے سے موجود کاروبار کو وسیع کرنا چاہتے ہیں مگر معاشی کمزوری کی وجہ سے ایسا نہیں کر پارہے تو حکومت پنجاب آپ کو فنانس کرے گی۔ پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن اور ”پنجاب روزگار سکیم“ کے توسط سے آپ ایک لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک انتہائی کم شرح مارک اپ پر قرضہ لے کر اپنی مراد بر لا سکتے ہیں۔
پنجاب روزگار سکیم جہاں نوجوانوں کی صلاحیتوں کی آبیاری کا نام ہے، وہیں یہ آسان قرضہ سکیم ان کیلئے بھی باعث حوصلہ ثابت ہوگی جن کے کاروبار کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے طویل لاک ڈاؤن سے تباہ ہوئے۔ اور جو 10 لاکھ سے زائد بیروزگار ہوئے۔ یہ سکیم انہیں دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دے گی۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ پنجاب روزگار سکیم ایک ایسے وقت میں لانچ کی جارہی ہے جب کورونا کی لہر دوبارہ سے سر اٹھا رہی ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا یہ ”نوجوان روزگار ویژن“ اور حالیہ حکومتی اقدام لوگوں میں سے بے یقینی کو ختم کرے گا اور یقینی طور پر معاشی گیم چینجر بھی ثابت ہوگا۔ یوں پنجاب کے شہری یہاں وہاں دیکھنے کی بجائے بذات خود ایک خوددار، خوداعتماد اور خودکفیل زندگی کا آغاز کر سکیں گے۔
حکومت کی جانب سے پنجاب روزگار سکیم کے تحت قرضے کے اجراء کے عمل کو آسان تر بنانے پر توجہ دی گئی۔ اس ضمن میں پی ایس آئی سی یا بینک آف پنجاب کی ویب سائٹ یا پھر پنجاب روزگار موبائل ایپ کے ذریعے آن لائن اپلائی کیا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ بااختیار اور خودکفیل شہری مضبوط معیشت، بہترین معاشرت اور معاشی طور پر خودمختار خاندان کا ضامن ہے۔ مجھے یقین ہے کہ موجود حکومت کے حالیہ جیسے اقدامات کے طفیل ہم جلد وہ وقت دیکھیں گے جب ملک معاشی ھب بنے گا اور ہر شخص کسی دوسرے پر انحصار کی بجائے اپنے قدموں پر کھڑا ملے گا۔ ہمارے لوگوں کے جذبوں اور محنت سے ملک و ملت کی جبیں جگمگا رہی ہوگی اور وزیر اعظم عمران خان کا یہ مقولہ سچ ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہوگا کہ دوسرے ممالک سے لوگ ہمارے ملک میں نوکری لینے آئیں گے۔