بھارت میں جنسی زیادتی: مجرموں کو نہ سماج کا ڈر، نہ قانون کا خوف

Protest

Protest

اترپردیش (اصل میڈیا ڈیسک) اترپردیش کے ہاتھرس کے بعد اب قومی دارالحکومت سے ملحق گروگرام میں اجتماعی جنسی زیادتی کے تازہ ترین واقعے نے اس تلخ حقیقت کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے کہ بھارت میں مجرموں کو نہ تو سماج کا ڈر ہے اور نا ہی قانو ن کا خوف۔

اترپردیش کے ہاتھرس میں ایک 19سالہ دلت لڑکی کے ساتھ اعلی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے اجتماعی جنسی زیادتی کا معاملہ ابھی گرم ہی ہے کہ قومی دارالحکومت دہلی سے ملحقہ ہریانہ کے گروگرام (گڑگاؤں) میں ایک 25 سالہ خاتون کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعہ نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔

گرو گرام کے اسسٹنٹ پولیس کمشنر کرن گوئل کے مطابق اس واقعہ میں ملوث چاروں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون ان میں سے ایک شخص سے واقف تھی۔ وہ عورت کو ایک عمارت میں لے گیا، جہاں مزید تین لوگ موجود تھے اور ان سب نے اس خاتون کے ساتھ اجتماعی طور پر جنسی زیادتی کی۔ متاثرہ خاتون کی طرف سے مزاحمت کرنے پر اسے بری طرح پیٹا گیا اور ملزمین عورت کو زخمی حالت میں سڑک پر پھینک کر فرار ہوگئے۔ ایک سکیورٹی گارڈ کی اس خاتون پر نگاہ پڑ گئی، جس نے پولیس کو مطلع کیا۔ اسے ایک ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔

اس دوران ہاتھرس اجتماعی جنسی زیادتی کا معاملہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ متوفیہ اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ یوپی حکومت کے رویے کی وجہ سے مقامی پولیس، ریاستی انتظامیہ، اعلی حکام اور وزیر اعلی کے خلاف عوامی ناراضگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ہاتھرس واقعے کے خلاف ایک طرف ملک کے مختلف حصوں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ تو دوسری طرف اپوزیشن سیاسی لیڈروں کا متاثرہ کنبے سے ملاقات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اقوام متحدہ کے نئی دہلی میں واقع دفتر کی طرف سے جاری بیان میں بھارت میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی تشدد کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا،”ہاتھرس او ربلرام پور کے ریپ اور قتل کے حالیہ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف سماجی شعبوں میں شاندار ترقی کے باوجود پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین اور لڑکیوں کو صنفی تشدد کا زبردست خطرہ لاحق ہے ۔” اقوام متحدہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی اور متاثرہ کبنے کو انصاف دلایا جائے۔

ہاتھرس واقعہ سے متاثرہ خاندان جہاں ایک طرف میڈیا کی مسلسل توجہ کی وجہ سے پریشانی محسوس کر رہا ہے وہیں اس پورے معاملے نے سیاسی رنگ لے لیا ہے۔

ہندو قوم پرست جماعت شیوسینا نے ہاتھرس کی متاثرہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی اور اس کی موت کا موازنہ ‘پاکستان میں ہندو لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی‘ سے کیا ہے۔

شیوسینا کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے پارٹی کے اخبار ‘سامنا‘ میں لکھا ”ہم سنتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات پاکستان میں ہوتے ہیں، جہاں ہندو لڑکیوں کا اغواکیا جاتا ہے اور جنسی زیادتی کے بعد ان کا قتل کردیا جاتا ہے۔ ہاتھرس میں جو ہوا وہ کچھ الگ نہیں تھا۔ لیکن اب تک کسی نے ہاتھرس کو پاکستان نہیں کہا… یہ سب یوگی(یوپی کے وزیر اعلی) کے رام راج میں ہوا۔”

اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ نے الزام لگایا کہ کچھ لوگ اس واقعے کی آڑ میں نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں سیاسی روٹیاں سینکنے کا موقع مل سکے۔

دہلی کے نربھیا اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد حکومت نے ایسے واقعات پر روک اور مجرموں پر لگام کسنے کے لیے کئی سخت قوانین بنائے تھے لیکن ان کے باوجود ان بہیمانہ واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔

ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں یا پولیس انتظامیہ ان معاملات میں کبھی بھی اپنی خامی قبول نہیں کرتی ہیں۔ وہ متاثرہ کنبے پر دباؤ ڈال کر معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیتی ہے۔ ایسے واقعات کے بعد ہونے والی سیاست کی وجہ سے بھی اصل مسئلہ پس پردہ چلا جاتا ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سونالی شکل ویدیہ نے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ملک میں ریپ کو خواتین کے لیے شرم کا موضوع سمجھا جاتا ہے اور اس کا شکار خاتون کی پیشانی پر ایک مستقل کلنک کا ٹیکہ لگادیا جاتا ہے۔ مجرم اسی ذہنی اور سماجی سوچ کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کئی معاملات میں ریپ کا ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دے کر بھی متاثرہ خواتین کا منہ بند رکھا جاتا ہے۔”

کرائم سائیکالوجی کے ماہر پروفیسر کے کے برہم چاری کا کہنا تھا، ”بھارت میں ریپ غیر ضمانتی جرم ہے لیکن ایسے مجرموں کو سیاست دانوں اور پولیس کا تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔ اور عام طورپر ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے مجرم بہت آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آج بھی ایسے جرا ئم کے بعد انگلی متاثرہ خاتون کی طرف ہی اٹھتی ہے، جس سے مجرموں کا حوصلہ بڑھتا ہے۔”

تھامسن روئٹرز فاونڈیشن نے سن2018 میں اپنے ایک سروے میں بھارت کو دنیا بھر میں خواتین کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں بھارت میں یومیہ اوسطاً 88 خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ اس میں گیارہ فیصد خواتین انتہائی پسماندہ یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق 2001ء سے 2017 ء کے درمیان یعنی 17برسوں میں جنسی زیادتی کے واقعات میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔

سماجی کارکنوں کا تاہم کہنا ہے کہ چونکہ دیہی علاقوں میں ایسے بیشتر جرائم کو پولیس تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا اس لیے حقیقی صورت حال اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہو سکتی ہے۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ سخت قوانین بنانے کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہو گا، جب تک کہ سیاسی جماعتیں، حکومتیں اور پولیس اسے نافذ کرنے میں مخلص نہ ہوں۔ اس کے ساتھ ہی سماجی تبدیلی بھی ضروری ہے۔