چوہدری پرویز الہی اور میں 1983 میں پہلی دفعہ بلدیاتی انتخاب میں منتخب ہوئے تو پنجاب حکومت کی طرف سے لاہور میںبلدیاتی کنونش کا انعقاد کیا گیا جس میں چوہدری پرویز الہی سے پہلی تعارفی ملاقات ہوئی تھی۔اس وقت سرداران ٹمن کی سیاست کا نہ کوئی متبادل اور نہ ہی کوئی بدل تھا۔ کیا خبر تھی کہ انتخابی سیاست کی پہلی سیڑھی چڑھنے کے بعد چوہدری پرویز الہی قومی سیاست کی ایسی ضرورت بنے گا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جو تخت حکومت کی طلب رکھتی ہو چوہدری برادران کی مشاورت،معاونت اور شراکت کے بغیر حکومت سازی کر سکے۔ بات صرف حکومتوں اور سیاست دانوں کی نہیں وئہ کسی بھی انتخابی حلقے میں بھی چلے جائیں اُس حلقے کے عمار یاسر اُن کے مقدر ہو جاتے ہیں اورکبھی کھبی ان کے مقدر کا سکندر بھی بن جاتے ہیں۔ان کے اندر کچھ ایسی غیر سیاسی روایات ضرور ہیں جو انہیں مقبول سیاست دانوں سے منفرد کرتی ہیں اور کچھ ایسے سیاسی رویے بھی دیکھے جا سکتے ہیں جن سے عوامی حلقوں میں ان کے انداز سیاست کو پزیرائی ملتی ہے۔اُن کے سیاسی وابستگان لمبے عرسے تک اُن سے منسلک رہتے ہیں۔ چوہدری برادران حال میں رہتے ہوئے مستقبل کی سیاست کرتے ہیں۔وئہ حالیہ الیکشن جیتنے والے حلقے کی نسبت مستقبل کے حلقہ انتخاب پر زیادہ نظر رکھتے ہیں۔حالات کی نبض پر اُن کا سیاسی ہاتھ موجود رہتا ہے۔
تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی مفاہمت کرکے آپ نے انتخابی حلقہ توضرورفتح کر لیا اور حکومت کاحصہ بھی بن گئے ۔لیکن عوامی بیٹھکوں میںنایاب ہیں۔کبھی کبھی عام لوگ حافظ عمار یاسر سے فوٹو سیشن کرکے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے دل پشوری کر لیتے ہیں۔حلقے کی کمزور برادریاں اور عام ووٹر سردارانِ ٹمن کے سیاسی تسلط کو توڑنے کے لیئے آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔انہوں نے آپ سے بہت ساری انفرادی اور اجتماعی توقعات وابستہ کر لیں تھیں۔ان کا گمان تھا کہ آپ سرداران ٹمن سے مختلف اور منفرد ہوں گے لیکن آپ تو سرداران ٹمن جیسا بھی پرفارم نہیں کرسکے۔پاکستان تحریک انصاف اورق لیگ کا اس حلقے میں سیاسی اتحاد غیر مقدس اتحاد ثابت ہوا ہے جس سے حلقے کی محرومیوں میں اضافہ اور عوامی سطح پرمایوسی بڑھی ہے۔ حکومت کے اختیارات والی شہ رگ آپ کی سیاسی گرفت میں ہے آپ خود بھی تخت اختیارات پر موجود ہیں لیکن وئہ حلقہ جسے آپ دوسرا گھر کہتے ہیں وہاںسیاسی نا امیدی کا سورج اپنی حدت بڑھا رہا ہے۔جس طرح لاہور میںمریم نوازکے سوشل میڈیا کا جدید نیٹ ورک کام کر رہاہے اسی طرح اس حلقے میں ق لیگ کا موثر نیٹ ورک موجود ہے جو وقت ضرورت پر کسی کی بھی ایسی تیسی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن عوامی نفرت کے سامنے ایسے نیٹ ورک ڈھال نہیں بن سکتے۔
اس حلقے میں پہلے بھی سدا بہار سیاست دان کے طور پر پہچانے جانے والے موجود رہے ہیں لیکن وقت کہاں سدا بہار رہنے دیتا ہے۔گلاب دیوی،ہولی فیملی اور شوکت خانم جیسے عوامی فلاح کے منصوبے ہی سدا بہار رہتے ہیں یہ کبھی خزاں زدہ نہیں ہوتے ۔چوہدری پرویز الہی کو اس کالم کے ذریعے مخاطب کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان کے پاس صنعتی علم بھی ہے، تجربہ بھی ہے اور وئہ اسے کرنے کی صلاحیت اور اختیار بھی رکھتے ہیں۔چوہدری پرویز الہی کے پاس لندن سے حاصل کردہ انڈسٹریل مینجمنٹ کا ڈپلومہ ہے وئہ ضلع کو نسل گجرات کے چیئرمین رہے انہیں صنعت سازی کاتجربہ اور صنعتی ترقی کی اہمیت پر بھی دسترس حاصل ہے۔چوہدری پرویز الہی اگر اس حلقے کی حالت سنوارنے کا ارادہ کرلیں تو یہاں کی بے آباد زمینوں پر گجرات کی طرح پنکھا سازی جیسی صنعتی بستیاں آبادہو سکتی ہیںجن سے آنگن آنگن ناچتی بد حالی اور نوجو انوں پر مسلط بے روزگاری کو کم کیا جا سکتا ہے۔فیصل آباد میں1200ایکڑ پر میڈیکل آلات بنانے کے لیئے صنعتی زون قائم کرنا احسن اقدام ہے۔سی پیک کے تحت رشکئی، فیصل آباد اور ٹھٹھہ میں اقتصادی زونز پر کام ترجیحی بنیادوں پر جاری رہنا چاہئے۔وزیر معدنیا ت حافظ عمار یاسر کا سیمنٹ انڈسٹری کے لیئے 8لائسنس جاری کرنا، صوبے میں30 ارب کی سرمایا کاری لانا صنعت اور معیشت کے لیئے تاریخی کاوش ہے لیکن ان بے صنعت علاقوں کی کب قسمت جاگے گی جہاں ہرطرف بے روزگاری اور غربت ہی اُگ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار نے پنجاب روزگار سکیم کا افتتاح کیا ہے جس کے تحت 30ارب کے قرض اسان شرائط پر نوجواانوںن کو دیئے جائیں گے جس سے6١ لاکھ لوگ مستفید ہوں گے۔اس سے چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو بھی ترجیحی بنیادوں پر قرضہ دیا جائے گا۔سابقہ تجربات کی روشنی میں پنجاب عموماً لاہور ہی رہا ہے اور زیادہ تر فنڈز انہی علاقوں میں خرچ ہوتے رہے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان ،وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار،اسپیکر صوباائی اسمبلی چوہدری پرویز الہی اور صوبائی وزیر عمار یاسر تلہ گنگ ،ٹمن اور لاوہ کے درمیان صنعتی شہر آباد نہیں کر سکتے تو کوئی صنعتی بستی ہی آباد کردیں اور اس علاقے کے بے روزگار نوجوانوں کے لیئے ترجیحی بنیادوں پر فنڈ مختص کریں۔
چوہدری پرویز الہی اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ جن علاقوں کے لوگ معاشی طور پر خود کفیل ہوتے ہیں وہاں رائے کی آزادی ہوتی ہے۔
وہاں ووٹ ووٹر کی مرضی کا ہوتا ہے ۔معاشی خوشحالی اور مالی خود مختیاری موروثی سیاست کی موت ہوتی ہے۔چوہدری پرویز الہی اس بے صنعت علاقے میںکوئی صنعتی بستی آباد کردیں گے تو اُن کی سیاسی بستی ہمیشہ کے لیئے آباد رہے گی۔