اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جمعے کو پاکستان ٹیلی مواصلاتی اتھارٹی نے اپنے اعلان میں کہا کہ ٹک ٹکا نے غیر اخلاقی مواد کو فلٹر کرنے کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا تھا۔
پاکستان کی ٹیلی مواصلاتی اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ اسے معاشرے کے مختلف طبقوں کی طرف سے ‘فحاشی اور بیہودہ مواد‘ کی اشاعت کی شکایات موصول ہو رہی تھیں۔ اس وجہ سے چینی ایپ ٹک ٹاک کو بلاک کر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ٹیلی مواصلاتی اتھارٹی کے مطابق اس نے ٹک ٹاک کو غیر اخلاقی مواد کی اشاعت کے خلاف خبردار کیا تھا، لیکن اس ایپ کے منتظمین قابل اعتراض مواد کی اشاعت پر کڑی نظر رکھنے اور اسے فلٹر کرنے سے متعلق ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔ اتھارٹی کے انتباہ کے باوجود ایسا مواد شائع ہوا اور اس پر عوامی رد عمل بھی سامنے آیا۔ اتھارٹی نے تاہم کہا ہے کہ ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک اگر قابل اعتراض مواد اپ لوڈ کرنے پر کنٹرول رکھنے اور کسی کو بھی ایسا کوئی مواد پوسٹ نہ کرنے دینے پر اتفاق کر لے، تو اس پابندی پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کی ٹیلی مواصلاتی اتھارٹی کی طرف سے یہ اقدام چند ماہ قبل لائیو اسٹریمنگ ایپ ‘بیگو‘ پر پابندی عائد کرنے کے بعد کیا گیا ہے۔ اس اقدام کی وجہ بھی یہی بنی تھی اور اس اتھارٹی کی طرف سے ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب کو بھی فحش اور نفرت انگیز مواد کو بلاک کرنے کے لیے انتباہی پیغام دیا گیا تھا۔
چند ماہ قبل لائیو اسٹریمنگ ایپ ‘بیگو‘ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
پاکستان کے قدامت پسند مسلم معاشرے میں حالیہ مہینوں کے دوران ڈیٹنگ ایپ ‘ٹنڈر‘ کو بھی بلاک کر دیا گیا تھا۔ ان اقدامات کو پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر ملک کی طاقتور فوج اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے آن لائن تنقید کو روکنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کر رہے ہیں۔
یوٹیوب پر شائع ہونے والی ایک فلم کو پیغمبر اسلام کی توہین کی کوشش قرار دے کر قابل مذمت بھی ٹھہرایا گیا تھا اور اس کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے تھے، جس کے بعد 2012ء میں یوٹیوب پر کئی مہینوں تک پابندی عائد رہی۔ اس کے بعد یوٹیوب نے پاکستان میں اپنی ایپ کا ایک مقامی ورژن متعارف کرایا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان کی موجودہ حکومت کے بارے میں ایک خاص طبقے کا خیال ہے کہ اس دور میں پاکستان میں سنسرشپ میں اضافہ ہوا ہے۔ 2018ء میں اقتدار میں آنے والے وزیر اعظم عمران خان پر فوج نوازی کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور ملک کے کچھ عناصر فوج پر گزشتہ انتخابات میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہیں، جن میں ‘کامیابی‘ حاصل کرتے ہوئے عمران خان وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے تھے۔