کورونا کی نئی لہر: فرانس میں صورت حال تشویش ناک کیوں؟

Coronavirus - Patient

Coronavirus – Patient

فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) فرانس میں کووڈ انیس کی دوسری لہر کے دوران ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت یونٹس ’آئی سی یوز‘ پر غیر معمولی بوجھ دیکھنے میں آ رہا ہے محض پیرس کے ہسپتالوں میں آئی سی یو کے 40 فیصد بستر کووڈ انیس کے مریضوں کے استعمال میں ہیں۔

فرانس میں کووڈ انیس کی دوسری لہر کے دوران ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت یونٹس ‘آئی سی یوز‘ پر غیر معمولی بوجھ دیکھنے میں آ رہا ہے محض پیرس کے ہسپتالوں میں آئی سی یو کے 40 فیصد بستر کووڈ انیس کے مریضوں کے استعمال میں ہیں۔

ایسے ہی مناظر فرانس کے ہر شہر میں دیکھے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی پہلی لہر سے کہیں زیادہ سنگین صورت حال اس وقت دوسری لہر کے سبب پیدا ہو چکی ہے جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

ڈاکٹر کریم ڈیبا بتاتے ہیں کہ رواں ہفتے ایک نائٹ شفٹ کے دوران ان کے کلینک کے ایک چھوٹے سے آئی سی یو وارڈ میں کورونا وائرس کے تین مریض انتہائی ایمرجنسی کے عالم میں داخل کیے گئے۔ یہ کلینک فرانس کے جنوب میں واقع شہر آرل میں قائم ہے۔ ڈاکٹر کریم کا کہنا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر پہلی کے مقابلے میں زیادہ شدید ہے اور ہسپتالوں، خاص طور سے آئی سی یو وارڈز میں مریضوں کی گنجائش ان کی موجودہ تعداد سے کہیں کم ہے۔ اس لیے اب ان کے کلینک کے دیگر حصوں میں بھی بستر لگائے جا رہے ہیں تاکہ عارضی طور پر کورونا کے مریضوں کو فوری طبی امداد تو مہیا کی جا سکے۔

فرانس کے ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے یونٹس کی شدید کمی۔

فرانس میں گزشتہ کئی ہفتوں سے کورونا وائرس کی انفیکشن جوان لوگوں میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ متعدد ہسپتالوں کے ڈاکٹروں اور فرانس کی نیشنل ہیلتھ ایجنسی کے مطابق نوجوانوں میں زیادہ اور انہی کی وجہ سے پھیلنے والی یہ انفیکشن معاشرے کے کمزور لوگوں پر حملہ کر رہی ہے اور یہ کہ دنیا کی متمول ترین اقوام میں سے ایک اور کورونا کی وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شمار ہونے والا فرانس بدقسمتی سے کورونا جیسی وبا سے نمٹنے کے لیے طبی سہولیات اور ضروریات کے مطابق تیاری نہیں کر سکا۔ فرانس کے ہسپتالوں میں نہ تو انتہائی نگہداشت کے یونٹس یا آئی سی یوز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا اور نہ ہی اس مغربی ترقی یافتہ ملک کے ہسپتالوں میں ایسی افرادی قوت میں اضافہ کیا گیا جو کورونا وائرس کے کیسز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بنیادی کاموں میں مدد کر سکے، مثال کے طور پر ہسپتالوں میں اضافی بستروں کا بندوبست وغیرہ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکام نے کورونا وائرس کی پہلی لہر سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈاکٹر کریم ڈیبا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ”حالات نہایت کشیدہ اور تشویش ناک ہیں۔ ہمارے پاس مریضوں کے لیے مزید جگہ نہیں ہے۔‘‘ ان کا ہسپتال ‘ریکوری رومز‘ کو آئی سی یوز یا انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں تبدیل کر رہا ہے۔ ان کے ہسپتال میں ایسی سرجری کو معطل کر کے کووڈ انیس کے مریضوں کی طبی امداد کی جا رہی ہے، جس کے مریضوں کی جان کو کوئی فوری خطرہ نہ ہو۔

فرانس میں ڈاکٹروں کا حکومت سے صحت کے نظام پر توجہ دینے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

ڈاکٹر کریم ڈیبا سے اضافی میڈیکل اسٹاف کے بارے میں کیے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ”مسئلہ سیدھا سا ہے۔ یہ کہ ہمارے پاس اضافی اسٹاف ہے ہی نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ رواں ہفتے پیرس میں سرکاری ہسپتالوں کے کارکنوں نے احتجاج کے دوران صدر ایمانوئل ماکروں سے اس صورت حال پر سوالات کیے اور اپنے مطالبات ان کے سامنے پیش کیے، تو جواب میں ماکروں کا کہنا تھا، ”ان مسائل کا تعلق وسائل سے نہیں بلکہ وسائل کے انتظام سے ہے۔‘‘ ماکروں نے کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کے لیے اپنی حکومت کے اقدامات کا دفاع کیا اور کہا کہ ہسپتالوں کے نظام کو بہتر اور مزید فغال بنانے کے لیے جولائی میں پیرس حکومت نے 8.5 بلین یورو کی امداد کا وعدہ کیا تھا۔ احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ امدادی رقم بہت کم ہے اور بہت سست رفتاری سے اس پر کام ہو رہا ہے۔ فرانس میں کئی سالوں پر محیط صحت کے شعبے کے بجٹ میں کٹوتی کے بعد سے پورے ملک کے ہسپتالوں میں آئی سی یو کے بستروں کی تعداد بہت کم ہو کر 2010 ء کے مقابلے میں 2020ء میں نصف رہ گئی ہے۔

کسی بھی ملک میں ہسپتالوں میں آئی سی یو کی سرگرمیوں اور اُس میں آنے والے کیسز کی شرح کو دراصل شعبہ صحت کے مؤثر ہونے، ہسپتالوں کی کارکردگی اور ان کے نظام کے فعال ہونے کی کسوٹی سمجھا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکام خطرے کی صورتحال سے دوچار ملکی عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کتنا سنجیدہ ہیں۔