پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد ہے، آل پارٹیز کانفرنس کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کا حکومت کے خلاف باقاعدہ تحریک چلانے کے لئے سیاسی اتحاد پر اتفاق تو ہوگیا، لیکن قوم پرست جماعتوں کو پی ڈی ایم کی سربراہی نہ ملنے پر تحفظات کا سامنا ہے۔سیاست میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پر مخالفین الزامات عائد کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے تحت انہیں باری باری اقتدار ملنا تھا۔ فی الوقت پی ڈی ایم کا حکومت کے خلاف اتحاد کی سیاسی گرمی صرف الیکٹرونک میڈیا میں ہی نظر آرہی ہے۔ اگر حکمران جماعت اس پر تبصرے پرکرنا چھوڑ دے تو شاید الیکٹرونک میڈیا کے اینکر پرسن ریٹنگ نہ ملنے کی وجہ سے پی ڈی ایم کو اہمیت ہی نہ دیں۔
حکومت کے خلاف سیاسی گرمی پیدا کرنے میں میڈیا کا کردار سب سے اہم ہے، دیکھا جاچکا ہے کہ ماضی میں الیکٹرونک میڈیا نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جو غیر فطری تھا، اظہار رائے کی آزادی کے نام پر لابنگ اور ترجمان بننے کے اقدام نے الیکٹرونک میڈیا کے بیشتر نیوز چینلوں اور ٹاک شوز کو متنازع بنا دیا۔ میڈیا کی غیر جانبدار ی شکوک کے دائرے میں ہے اور عوام کی اکثریت الیکٹرونک میڈیا کے بیاینے کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں۔ چند سو افراد پر مشتمل سروے کو پورے ملک کا فیصلہ مسلط کرانے کی روش نے عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچایا۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے آپسی اختلافات ہی اتنے زیادہ ہیں کہ بظاہر بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ سیاسی پنڈتوں کا بھی یہی ماننا ہے کہ پی ڈی ایم کا ظاہری اور باطنی خواہشجداگانہ ہے۔ عوام بدترین مہنگائی،بے روزگاری اور نامساعد حالات کے باوجود بھی ایسی حکومت کو موقع دینا چاہتے ہیں، جن کے سیاسی و معاشی فیصلوں میں کوئی ربط نہیں، کوئی مستقل مزاجی نہیں اور مستقبل کے لئے واضح حکمت عملی کا نمایاں فقدان ہے۔
الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کے درمیان قدر مشترک احتساب سے باہر نکلنا ہے۔واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ پی ڈی ایم میں شریک کچھ جماعتیں، پی ٹی آئی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے قبل ایسے مطالبات منوانا چاہتی ہے جس سے ان کے رہنماؤں کو ریلیف مل سکے۔ لیکن ان کے مفادات کی جنگ میں عوام کے اصل مسائل حل طلب ہی رہیں گے، عوام کو احتجاج، و ھرنوں کے لئے ذہنی طور پر تیار تو کیا جارہا ہے، لیکن ایک بہت معقول تعداد فراہم کرنے کا واحد راستہ قوم پرست سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں قوم پرست پرستوں کے نظریے متصادم ہیں۔ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے فلسفے اور نظریات میں اُن کے جذبات اور احساس محرومی کا عنصر زیادہ ہوتاہے، چونکہ قوم پرست جماعتوں کو وفاق میں اقتدار ملنے کا امکان نہیں ہوتا، اس لئے ان کی زیادہ توجہ علاقائی(صوبائی) سیاست کو مضبوط بنانے میں صَرف ہوتی ہے۔ جب کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے کارکنان بھی قومی دھارے میں اُس شکل میں اپنی جگہ نہیں پاتے جس کی وہ امید کرتے ہیں،کیونکہ بڑی سیاسی جماعتوں میں عہدوں پر اثر رسوخ کی حامل شخصیات کا غلبہ رہتا ہے، جو جاگیر دار،صنعت کار، سرمایہ دار،وڈیرے، سردار اور خوانین ہوتے ہیں۔
قوم پرست جماعتیں، قومی دھارے میں اپنے کم مالی وسائل و محدود نظریے کی وجہ سے دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کی طرح جگہ بنانے سے قاصر رہتی ہیں کیونکہ اُن کا منشور صرف ان کی وارثت و علاقے کے گرد ہی گھومتا ہے۔ عوام کی دلچسپی قوم پرست جماعتوں میں دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ نظر آتی ہے، اس لئے چھوٹی جماعتیں اپنی علاقائی سیاست میں گرفت مضبوط کرنے کے لئے بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ الحاق کرلیتی ہیں اور اُن کے لئے ’چارے‘کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔انتخابات میں کم نشستوں لے کر بڑی سیاسی جماعت بالخصوص ممکنہ حکمران بننے والوں کے ساتھ اتحادی بننے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ کنگ میکر بن کر حکومت سے اپنا حصہ پا سکیں۔
پی ڈی ایم میں سربراہی کی روٹیشن پر اختلافات کی اطلاعات و چھوٹی سیاسی جماعتوں کا علیحدگی کا عندیہ دینے کے مقاصد میں یہی عنصر کارفرما ہوتا ہے کہ انہیں میڈیا میں بھرپور کوریج مل جاتی ہے اور علاقائی سیاست میں ان کا کردار مخالف سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس مدارس کے طلبا و مقلدین کی بڑی تعداد موجود ہے جو اُن سے عقیدت کی بنا پر کسی بھی مرحلے میں ہزاروں مظاہرین کی شکل میں دیگر بڑی جماعتوں کے مقابلے میں قوت رکھتے ہیں۔ایسا نہیں کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس فعال کارکنان کی تعداد موجود نہیں، جلسوں اور علاقوں میں ریلیاں نکالنے کے لئے تنظیمی ڈھانچہ فعال نہ ہونے کے باوجود سیاسی حدت میں اضافہ کر سکتے ہیں، لیکن تنظیم سازی میں عہدوں کی تقسیم پر اختلافات شدید نوعیت کے ہونے کی وجہ سے ان کا کردار دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکنان سے کمزور ہے۔
پی ڈی ایم آنے والے دنوں میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لئے چھوٹی قوم پرست جماعتوں کو ناراض کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، کیونکہ ان کے قائدین کی عدم موجودگی میں قوم پرست جماعتیں ہی ان کی بیساکھی ہیں، قوم پرست چھوٹی سیاسی جماعتیں ملک تحریک چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی، اس حوالے سے عوام میں متفقہ مقبولیت کا ہونا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ قوم پرست جماعتوں کی اختلافی سیاسی عمارت کا انحصار بڑی سیاسی جماعتوں و صوبوں کے خلاف نظریات پر مبنی ہے، انہیں ملک گیر سطح پر پُر امن تحریک چلانے میں کامیابی نہیں مل سکتی۔
ملک گیر تحریک چلانے کے لئے ایک راستہ مذہبی کارڈ بھی ہے، پارلیمان سے باہر مذہبی کارڈ ہی حکومت کے لئے درد ِ سر بن سکتاہے جو اُن سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو بھی متاثر کرسکتا ہے جو کسی مذہبی جماعت کے کارکن نہیں۔ مسالک و فرقہ وارنہ سیاست پر مملکت میں احتجاج و دھرنوں کا تجربہ عمومی طور پر کامیاب رہتا ہے اور جو حکومت بھی ہو، مذہبی جماعتوں کے احتجاجی مظاہروں و دھرنوں سے خائف رہتی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل بعض جماعتیں، سینیٹ انتخابات تک اپنے مطالبات منوانے کے لئے پس پردہ ’ڈیل‘ کرسکتی ہیں جو یہ خارج از امکان بھی نہیں، تاہم اہم قابل غور اَمر یہ ہے کہ سیاسی دھارے میں مذہبی جماعتوں کو الگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور انہیں قومی دھارے میں شامل رکھا جائے تو یہ سب کے حق میں بہتر ہو گا۔