ملک میں امن قائم رہتا کیوں نہیں؟ ایسا لگتا ہے جیسے بات ملک چلانے کی بات اس ملک کی سلامتی امن اور خوشحالی کی نہیں بات اب محدود اب صرف پاوَر، کرسی، عہدوں کی حد تک محدود ہے۔ قائد کے قول تو اب مجھے صرف کتابی باتوں تک ہی دکھتے ہیں یہاں اب پاکستان کو پاکستان کے لیے نہیں اپنے مفاد کے لیے دیکھتا ہے۔ دیکھنے والا یہ جانتا ہے کتنی جانیں کتنی قربانیاں اور کتنی جدوجہد بعد آج پاکستان آزاد ہے کیا کیا ظلم نہیں سہے؟ کیا کچھ نہیں چھوڑ آ? بٹوارے میں؟ کیا واقف نہیں ہم ان سب سے۔ایک بات میری سمجھ سے پَرے ہی رہتی ہے وہ یہ کہ کرسی اور وزارتوں کا یہ کیسا نشہ ہے جو وطن پرستی کے جذبے پر دھول ڈال دیتا ہے۔
نظر نہیں دیکھنا چاہتی ملک کی بقاء سلامتی۔2013 کے الیکشن کے بعد سی ہی ملک میں کرپشن کیسس کے چلتے چوروں کو پکڑنے اور دبوچ لینے کا ایک سلسلہ چل پڑا اور پھر ایک کے بعد ایک ہتھے چڑھتا گیا۔ملک آذاد ہونے کے بعد اب تک اپنے سرحد کے اندر ہی کئی غداروں کی گونج سنی اور سنائی گئی۔ کئی ثابت ہو? اور کئی آج تک پاکستان میں کھڑے اپنے پنجے جمائے ہوئے ہیں۔ یہاں بات زیرِ غور یہ بھی ہے جب بات پاک وطن پاکستان کے لیے کی جاتی ہے تو ارادے یہاں پاک کیوں نہیں رہ پاتے؟ باتیں اپنی مفادات کی کیوں آجاتی ہیں پاکستان کے مفادات کو صرف ایک طرفہ کیوں نہیں دیکھا جاتا؟ ہر ایک دھکا مار آگے بڑھ کرپشن بنا میں پڑا دکھتا ہے۔ ایک حکومت اپوزیشن میں بیٹھتی ہے تو برسرِاقتدار حکومت پر غریب عوام کی روداد کی آڑ میں خوب تنقید کی تیر چلاتی ہے اور جب یہی اپوزیشن حکومت کی کرسی سنبھالتی ہے تو وہ ہی غریب عوام جو بڑی امید آرزؤں سے ووٹنگ کرتے ہیں بعد میں کھانے پینے اور سر کی چھت کو ترستے ہیں۔
میرے خیال میں پچھلے کچھ سالوں میں جو حالات پاکستان کے رہے ہیں اس میں پاکستان ترقی کی راہ پر چل پڑتا یہ صرف ناممکن ہی تھا مگر خون رنگ لاتا ضرور ہے جو قربانیاں پاکستان کو بنانے کے لیے دی گئی وہ کسی صورت پاکستان کو ڈوبنے نہیں دیتی۔
حالیہ غداری کیس کی بات کریں تو نواز شریف کے خلاف غداری کیس کی بنیاد انکے خطابات کا مقصد کشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹانا، فوج کو بدنام کرنا، پاکستان کو ایف اے ٹی ایف سے بلیک لسٹ کرانا، ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف سازش اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے منصوبوں کی تکمیل کی راہ ہموار کرنا تھا جبکہ وزیرِ اعظم اس کیس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خاں چاہتے ہیں کہ آصف زرداری اور نواز شریف کیخلاف کرپشن کیسز جلد انجام کو پہنچیں۔ 3 اکتوبر کو ہونے والے سربراہی اجلاس میں مولانا فضل الرحمان کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا سربراہ چُنا گیا تھا دیکھنا یہ ہے کہ یہ فیصلہ کتنا کامیاب ہوگا۔
پی ڈی ایم حکومت کے خلاف تحریک کا باقاعدہ آغاز 16 اکتوبر کو گوجرانولہ میں جلسے سے کرنے جارہی ہے جب کہ دوسراجلسہ کراچی میں 18 اکتوبر کو کرنیکا فیصلہ کیا گیا ہے۔اب میری باری یو آؤٹ کا جو ٹرینڈ پاکستان میں چل پڑا ہے اس سے باہر نکلنے میں پاکستان کو بہت وقت لگ سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے تو جیسے تماشہ ہی بنادیا ہے کہ حکومت اگر پلیس کرنے سے نہیں ملتی تو پاوَر آزمایا جائے۔ پہلے کرپشن کو نشانہ بنا کر انصاف کی تحریک چلائی گئی اور اب الیکشن میں دھاندلی کو جواز بنا کر دھرنا منظر پاکستان کو دوبارہ دکھایا جائیگا۔۔اپوزیشن جماعتیں بالآخر معاہدہ کرکے الائنس بناچکی ہیں اور ایکشن پلان کا اعلان کیا جاچکا ہے۔
اتحاد ملک کے مختلف شہروں میں جلسہ ہائے عام کے ذریعے اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کرے گا جسے بتدریج لانگ مارچ اور دھرنے تک لیجانے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن حکومت کے لیے اس بات کی یقین دہانی بے حد ضروری ہے کہ ان دھرنوں سے پاکستان کی معشیت پر مزید کوئی بوجھ نہ پڑے کیونکہ حالات کے چلتے پاکستان کسی قسم کے نقصان کو برداشت نہیں کر سکتا۔