کورونا وائرس سے پہلے زندگی ایک ڈَگر پر رواں دواں تھی۔ دوست احباب سے ملاقاتیں اور عزیزواقارب کے ہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔میرے میاں (پروفیسر مظہر) کوتو دعوتیں کرنے اور اُڑانے کا شوق ہی بہت ہے۔ کورونا سے پہلے ہمیں مختلف اوقات میں جناب عطاء الحق قاسمی، عطاء الرحمٰن، مجیب الرحمٰن شامی، الطاف حسن قریشی، وجاہت مسعود، رؤف طاہر، سجاد میر، ارشاد عارف، نجم ولی خاں، حفیظ اللہ نیازی، شعیب مرزا، نویدچودھری، عامرخاکوانی اور حبیب اکرم جیسے احباب شرفِ میزبانی بخشتے رہے جن کی باتیں سُن سُن کر ہم بھی تھوڑے تھوڑے سیاسی ہوگئے اور ”ایویں خوامخواہ” سیاست کو ”ٹھونگے” مارنے لگے۔ یاسر پیرزادہ، ناصر محمود ملک، اجمل شاہ دین، گلِ نوخیزاختر اور قمر صاحب کو مظہرصاحب ”پنج پیارے” کہتے ہیں۔ یہ احباب جہاں بھی حملہ آور ہوں، اکٹھے ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے گھر میں وہ جب بھی تشریف لاتے ہیں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بعض اوقات تو ہم بھی ڈر جاتے ہیں کہ کہیں بات ایک بحر سے نکل کر دوسری بحر میں داخل نہ ہو جائے لیکن ہمیشہ ایسا ہی ہوا کہ وہ قہقہوں کی برسات میں ہی رخصت ہوئے۔ کورونا کے بعد پہلی دعوت میں ”پنج پیاروں کے ساتھ نوجوان شاعر وصی شاہ بھی تشریف لائے جن کی خوبصورت شاعری سے محفل کا رنگ ”چوکھا” ہوگیا۔ محترم لیاقت بلوچ، فرید احمد پراچہ اور احسان اللہ وقاص جیسے احباب کو یوں سمجھ لیجئیے کہ جیسے وہ ہمارے گھر کے افراد ہوں۔ اِسی طرح نوجوان مبین رشید ہمارے گھر اہلِ خانہ کے ہمراہ آتے رہے لیکن اب وہ لندن کے ہوکر رہ گئے ہیں۔
”ہر کہ کانِ نمک َرفت شود”کے مصداق ایسے اَکٹھ میں بھلا سیاست سے کون دامن بچا سکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہلکے پھلکے کالم چھوڑ کر ”ایویں خوامخواہ” سیاست کو مُنہ مارنے لگے۔ اِس ”موئی” سیاست نے ہم سے ہمارے سٹارپلس کے ڈرامے بھی چھین لیے۔ پھر ہم نے ”رَج کے” سیاسی کالم لکھے۔ ہماری سیاسی پیشین گوئیوں کی سچ ہونے کی تعداد بہرحال شیخ رشید سے کہیں زیادہ ہے حالانکہ ہمارے پاس کوئی ”کالمی درویش” ہے نہ ”طوطا مینا”اور نہ ہی ہمارا ”اونچی حویلی” سے کوئی رابطہ جس پر ہم ”فخر” کر سکیں۔ ویسے آپس کی بات ہے، جی تو ہمارا بھی چاہتا ہے کہ کبھی اونچی حویلی سے ”طلبی” کا حکم آئے تاکہ ہم بھی اُس جگہ کا دیدار کر سکیں جس کی چوکھٹ کو ہماری سیاست کی سب سے اونچی مسند پہ جلوہ افروز بھی چومتے ہیں۔ ہماری تاریخ ثابت کرتی ہے کہ سبھی سیاسی رَہنماء اِس چوکھٹ پر سجدہ ریزی کو لائقِ صد افتخار سمجھتے ہیں اور حصولِ مقصد کے لیے قطاراندر قطار کھڑے رہتے ہیں۔ پھر جس کو اذنِ بازیابی نصیب ہوتاہے، وہی سکندر، باقی سب ”مچھندر” جن کے بارے میں میر تقی میر نے کہا ”کیا کہوں مرچ تھی نہ ادرک تھی ۔۔۔ اِس مچھندر میں کچھ بھی بھدرک تھی؟”۔ سچ یہی کہ سبھی اِسی نرسری کے پروردہ جن میں سیاسی ”رقابت وقابت” کچھ نہیں، نہ یہ کسی سے ”ڈرتے ورتے” ہیں۔ اِن کی رقابت تو ”اُس کی گلی میں” سب سے پہلے پہنچنے کے لیے ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ بازی تو وہی لے جائے گا جو محبوب کا جھنڈا اُٹھائے گلی گلی اُس کے حُسن کا پرچار کرتا پھرے گا۔ جسے یہ بھی علم ہو کہ ”گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا۔۔۔ جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں”۔ وہ ایک دفعہ مات کھا بھی جائے تو دوسری دفعہ بازی بہرحال اُسی کے ہاتھ رہتی ہے اور رقیبانِ روسیاہ جل بھُن کر ”سیخ کباب” ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ سبھی ”اکٹھ” کر لیتے ہیں لیکن ”اندرکھاتے” ایک دوسرے کے شدید مخالف۔ مقصد سب کا ایک، دَرِ محبوب پہ سجدہ ریزی۔
قارئین! دیکھ لیں کہ اب کی بار ہم نے اپنے کالم میں سیاست کو ”ٹھونگا” مارانہ لوٹوں، گھوڑوں اور گدھوں کا ذکر کیا کیونکہ ہم بھائی عطاء الحق قاسمی کے شاگردوں میں سے ہیں جو اپنے ہلکے پھُلکے کالموں میں ”کھبی دکھا کے سَجی مارنے” میں یَدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ یوں تو قاسمی بھائی ہمیں اپنے شاگردوں کی صف میں شامل کرنے کو ہرگز تیار نہیں لیکن وہ مانیں نہ مانیںہم بہرحال اُن کے شاگردِ رشید بلکہ عبد الرشید ہیں۔ قاسمی بھائی ”پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ” کی عملی تصویر ہیں۔ وہ تو اُس وقت بھی لالچ میں نہیں آئے جب آمر پرویز مشرف نے اُنہیں بطور سفیر کام کرتے رہنے کا عندیہ دیا لیکن وہ سفارت کو جوتے کی نوک پر رکھ کر وطن لوٹ آئے۔ وہ تو اُس وقت بھی نہیں جھُکے جب بابا رحمتااُن کو ”پَے” گیا۔ بابے رحمتے نے عدل کی سب سے اونچی مسند پر بیٹھ کر سوال کیا کہ پی ٹی وی کی چیئرمینی کے لیے کیا معیار مقرر ہے اور قاسمی صاحب کی کوالیفیکیشن کیا ہے؟۔ اب اُس مخبوط الحواس کو کون سمجھاتا کہ جو شخص اُردو ادب کی شان ہو، سدا بہار مزاح نگار، کالم نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر ہو۔ جو کئی کتابوں کا مصنف، شگفتہ نثرنگار اور سابقہ سفارت کار ہو، اُس کی وجاہتِ علمی کے آگے تو پی ٹی وی کی چیئرمینی بقدرِ اشکِ بُلبُل بھی نہیں۔ بابے رحمتے نے ”بغضِ معاویہ” میں یہ سب کچھ کیا لیکن قاسمی بھائی کو جھکا نہ سکا۔ آج قاسمی صاحب پورے قد کے ساتھ کھڑے ہیں اور بابے رحمتے کا کہیں نام ونشان نہیں۔
بات شاید پھر سیاست کی طرف نکل گئی حالانکہ ہم توبہ تائب ہوچکے لیکن سیانے کہہ گئے ”چھٹتی نہیں یہ کافر مُنہ سے لگی ہوئی”۔ اِس لیے اگر کل کلاں ہم بھی یوٹرن لے لیں تو پیشگی معذرت کہ اطاعتِ امیر ہمارا فرضِ عین اور ہمارے ”امیر” کا فرمان ”یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ جو یوٹرن لینا نہیں جانتا، اُس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہوتا”۔ اب ہم بیوقوف تو بننے سے رہے اِس لیے ”رِند کے رِند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی” کے مصداق ہم قاسمی بھائی کی ”شاگردی کا بھرم بھی رکھیں گے اور کبھی کبھی یوٹرن بھی لے لیا کریں گے۔
بات دعوتیں کھانے کھلانے سے چلی لیکن جب قلم تھاما تو کہیں کی کہیں نکل گئی۔ ہم کہہ رہے تھے کہ دعوتیں کھاتے کھلاتے ہم بہت خوش تھے کہ اچانک یہ نگوڑا کورونا پتہ نہیں کہاں سے ٹپک پڑا کہ جس نے سب کچھ اُلٹ پُلٹ کے رکھ دیا۔ ہم نے پچھلے 7 ماہ میں امریکہ جانے کے لیے وقفے وقفے سے تین بار ٹکٹ بُک کروائی لیکن کورونا سے مُنہ کی کھائی۔ اب پھر رَختِ سفر باندھ رہے ہیں لیکن سفر سے تین دن پہلے کورونا کا ٹسٹ کروانا لازمی ہے اور شنید ہے کہ کوروناٹسٹ کے لیے ناک میں ”سلاخ” ڈالتے ہیں۔ یہ سُن کر ابھی سے ہاتھوں بلکہ پاؤں کے طوطے بھی اُڑتے جا رہے ہیں۔ دعوتیں ہوا ہو چکیں، باہر نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ اگر نکلو بھی تو مُنہ پہ ”چھِکو” چڑھا کے جس سے ویسے ہی دَم گھُٹنے لگتاہے۔
اگر کوئی قریب آنے کی کوشش کرے تو یوں بِدک کے پیچھے ہٹتے ہیں جیسے سامنے والا بِچھو ہو۔ دائیں بائیں یوں دیکھتے ہیں جیسے سوائے ہمارے سبھی کورونا زدہ ہوں۔ گھر پہنچنے پر ہاتھ دھو دھو کے ”پھاوے” ہو جاتے ہیں۔ دوستیاں اور رشتے داریاں کورونا کی بھینٹ چڑھ چکیں اور ہم کنوئیں کے مینڈک بن کے رہ گئے۔ اب بھی پاکستان میںروزانہ چھ سات سو مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور حکمران پُکار پکار کے کہہ رہے ہیں کہ کورونا ابھی ختم نہیں ہوا۔ اُدھر ڈبلیو ایچ او کے بیانات کی بھرمارکہ کورونا زندگی کے ساتھ ساتھ چلے گا۔ ایسے میں زندگی کا ہر رنگ بے رنگ کہ کورونا کے ساتھ زندگی گزارنے کے تصور ہی سے وحشت ہونے لگتی ہے۔