ایسے لگتا ہے کہ عوام کو یرغمال بنا کر پاکستان کو مسائلستان بنایا جارہا ہے اور ایسا کون کرسکتا ہے اور کیوں کریگا یہ ایک نکتہ ہے جسے سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ مفادات اوراقتدار کی جنگ میں کوئی جذبات نہیں ہوتے کوئی جہالت نہیں ہوتی،کوئی غربت نہیں ہوتی،کوئی بھوک نہیں ہوتی،کوئی افلاس نہیں ہوتا،کوئی دکھ نہیں ہوتا،کوئی درد نہیں ہوتا،کوئی مصیبت نہیں ہوتی،کوئی طوفان نہیں ہوتا کچھ بھی نہیں ہوتا جی ہاں کچھ بھی تو نہیں ہوتا اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ چیخیں ہوتی ہیں عوام کی نکلیں یا حکمرانوں کی اور خاص کر یہ چیخیں عوام کی جتنی زیادہ نکلیں گی اتنے ہی مخالفین خوش ہوتے ہیں عوام دو وقت کی نہیں بلکہ ایک وقت کی روٹی کو ترسیں،پانی کی ایک ایک بوند کو ترسیں،علاج کیلیے ادویات کو ترسیں،غربت کی دلدل سے باہر نکلنے کو ترسیں،ہسپتالوں میں علاج کے لیے ترسیں،پولیس سے انصاف کے لیے ترسیں اور زندہ رہنے کے لیے زندگی کو ترسیں یہی تو وہ چاہتے ہیں جو آج کی تاریخ تک تو بلکل انکی منشا کے مطابق ہورہا ہے گندم اور آٹے کا بحران ہے روٹی 10روپے کی ہوچکی ہے چینی ایک سو سے تجاوز ہوچکی ہے پیٹرول ایک سو سے زیادہ میں فروخت ہورہا ہے ادویات سے علاج کروانا مشکل ہوچکا ہے اور اسکی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں جینا مشکل ہوچکا ہے اور مرنا اس سے بھی مشکل بن گیا ہے لوٹ مار کرنے والوں کے لیے خوشی کا سماں ہے ہر روز انکے لیے عید کا دن اور رات چاند رات بن چکی ہے عوام کی ٹرپ کا مزہ لے رہے ہیں۔
ہمارے دشمن دار بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ جب وہ اپنے دشمن کو مار رہے ہوتے ہیں تو ساتھ میں بھنگڑا بھی ڈال رہے ہوتے ہیں جیسے جیسے دشمن پر تشدد ہوتا ہے ویسے ویسے انہیں سکون ملتا ہے اور پھر جب دشمن جان سے گذر جاتا ہے تو پھر لاش پر مجرا شروع ہوجاتا ہے اس موضوع پر بے شمار فلمیں بھی بن چکی ہیں جس میں ہمارے ہردلعزیز ہیرو جناب سلطان راہی صاحب نے بے شمار کردار ادا کیے اسکے علاوہ ہم آئے روز نشئی حضرات کو دیکھتے رہتے ہیں جو اپنا نشہ پورا کرنے کے چکر میں ہر وہ چیز بیچ ڈالتے ہیں جہاں سے انہیں کچھ نہ کچھ پیسے مل جائیں اور وہ لوگ اپنا نشہ پورا کرلیں اس کے لیے نشئی بڑے سے بڑا خطرہ بھی اپنے سر لے لیتا ہے۔
گاڑیوں کی بیٹریاں اور گٹروں کے ڈھکن چوری ہونا معمول کی بات ہے اور پھر انہی کھلے ہوئے مین ہولز میں لوگ گر کر زخمی ہو جاتے ہیں اور کچھ موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں مگر نشئی لوگوں کو ان سے کوئی سروکار نہیں انہوں نے صرف اپنا نشہ پورا کرنا ہے اور جو لوگ اقتدار کے نشہ کے لیے ٹرپ رہے ہیں انکی ذہنی حالت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں اگر ایک عام نشئی اپنے نشہ کی تکمیل کے لیے سڑک کے درمیان لگے ہوئے مین ہول کا ڈھکن اٹھا سکتا ہے تو چوری اور ڈاکے سے پیسہ اکٹھا کرنے والے اقتدار کے نشیؤں کے لیے ملک کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ بند کرکے عوام کو موت کے منہ میں دھکیلنا کونسا مشکل کام ہے انکے پاس تو بے پناہ دولت،وسائل اور سب سے بڑھ کر انکے وہ ذاتی خدمتگار ملازمین ہیں جو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں میرٹ سے ہٹ کر بھرتی کیے تھے اور اب وہ سب ملکر اپنے اقتدار کے نشہ کو پورا کرنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرینگے جس سے عوام مشکل میں آئیں عوام پر جتنی مشکلات اور پریشانیاں آئیں گی،جتنی بھوک اور غربت ہوگی،جتنی چوریاں اور ڈکیتیاں ہونگی۔
جتنی بد امنی ہوگی،جتنی کرپشن ہوگی،جتنی روٹی مہنگی ہوگی،جتنے جلسے، جلوس احتجاج روڈز بلاک ہونگے، پولیس کے زریعے جتنا عوام کو دبایا جائیگا،جتنی بے روزگاری بڑھے گی اور ان سب کے نتیجہ میں جب عوام سڑکوں پر آکر احتجاج کرینگے تو پیسہ پھینک تماشا دیکھ والے خوش ہونگے بھنگڑے ڈالیں گے کہ ہم نے عوام کو اتنا مجبور کردیا ہے کہ وہ خود کشی کرلیں یا پھر حکمرانوں کو گریبان سے پکڑلیں اس وقت کچھ ایسی ہی ہماری صورتحال بنتی جارہی ہے کیونکہ چور اور ڈاکو تجربہ کار ہیں اور اقتدار کا جو نشہ انکی رگوں میں سماچکا ہے اسے ہر حال میں پورا کرنے کے لیے انہیں پورا ملک بھی کسی کھلے میں ہول میں دھکیلنا پڑے تو دھکیل دینگے جسکا ڈھکن انہوں نے پہلے ہی چوری کرلیا ہے اس وقت پوری معیشت پر انکا قبضہ ہے ملک میں چینی کا بحران انہوں نے پیدا کیا،ملک میں آٹے کا بحران انہی کا پیدا کردہ ہے،ملک میں ڈالر کو پر لگے اس میں بھی انہی افراد کو ہاتھ ہے۔
ملک میں سونا آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا اس کے پیچھے بھی یہی مافیا ہے کیونکہ غریب لوگ تو سونا خریدتے ہی نہیں ڈالر انکی پہنچ میں نہیں صرف دو وقت کی روٹی وہ کھاتے تھے اور اب انکی کوشش ہے کہ وہ بھی ان سے چھین لیں تاکہ ملک میں بد امنی زیادہ سے زیادہ پیدا ہو جسکے نتیجہ میں عوام جیتے جی مر جائیں اور حکمران اسے اپنی ناکامی سمجھتے ہوئے اقتدار سے الگ ہوجائیں اور پھر دوبارہ اقتدار انہی افراد کے سپرد ہوجائے جو یہ سبھی حالات پیدا کررہے ہیں تاکہ انکا نشہ پورا ہوسکے جیسے جیسے اقتدار کے یہ نشئی حکمرانی سے دور ہیں ویسے ویسے انکے حالت بگڑ رہی ہے نہیں یقین تو دیکھ لیں کل جو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے وہ آج کیسے پھر سے بغلگیر ہوچکے ہیں جیسے نشئی نشہ کرنے کے لیے اکھٹے ہوجاتے ہیں چرس کا ایک سگریٹ سبھی افراد میں گھومتا ہے جو حلقہ میں بیٹھتے ہیں۔
شرابی بھی سبھی کو پیگ بنا کر پیش کرتے ہیں خواہ کوئی پینے والا ہو یا نہ ہو مگر وہ سب کو پیش کرتے ہیں اور اس برائی میں دھکیل کر خوش ہوتے ہیں بلکہ اسی طرح عدالتوں اور نیب کے تصدیق شدہ قومی مجرم اپنے ٹوٹتے ہوئے جسموں کو سہارا دینے کے لیے ایک دوسرے کو اقتدار کے نشہ کا پیگ بنا بنا کردینے کو بے قرار ہیں تاکہ انہیں سکون مل سکے اس وقت اصل امتحان ان اداروں کا ہے جو ملک کو ہر مصیبت اور پریشانی سے بچانے کے لیے ہرگھڑی تیار رہتے ہیں اب وقت آچکا ہے کہ ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی کے راستہ میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کا سختی سے محاسبہ کیا جائے حکومت کو اسکے لیے عابد باکسر جیسے افراد کی ضرورت ہے کیونکہ قانون اور قانون والوں کو وہ کچھ نہیں سمجھتے بلکہ اسے تو وہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جسکی وجہ سے آج ہمارے وزیراعظم مسٹر کلین ہونے کے باوجود ہم پریشانیوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔