”ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے” یہ مصرعہ مشہور شاعر مرحوم علامہ اقبال کا ہے،علامہ اقبال نے بھی اْمت اسلامیہ کو ہمہ گیر سطح پر جھنجھوڑنے کی کوشش کی وہ مسلمانوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتے رہیں کہ قومیت کے بتوں کو توڑ کر ایک ملّت کی شکل میں متحد ہوجائیں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔لیکن مقام صد افسوس ہے کہ آج اس دین کے پیروکار ہی دنیا میں سب سے زیادہ گمراہ اور بھٹکی ہوئی راہ پر گامزن ہے۔ ذلت و رسوائی اور ذہنی محکومی ہمارا مقدر ثابت ہورہی ہے۔ آج دشمنان ِ اسلام مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔ فلسطین سے لیکر کشمیر و برما تک عرصہ دراز سے ظلم وزیادتی کا سلسلہ جاری ہے اور آج عالمی سطح پر دعوتِ دین اور غلبہ دین کے لئے امت مسلمہ میں مضبوط اجتماعیت اور منظم اتحاد کی ضرورت ہے۔قرآن وسنت میں متعدد مقامات پر اجتماعیت اور آپسی اتحاد پر صاف صاف وضاحتیں ملتی ہیں۔سورہ العمران آیت103میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو۔”
آج پوری دنیا ایک انقلابی دور سے گزر رہی ہے، سفینہء انسانیت ہچکولے کھا رہی ہے، حالات روز افزوں کروٹ بدل رہے ہیں، ساری قومیں مل کر مستقبل کا خاکہ و نقشہ بنارہی ہیں، اس ترقی پذیر دنیا میں جہاں ملکوں کا پرانا نظام بدل رہا ہے، وہیں دوسری طرف اسلام دشمن قومیں مادی اور ظاہری طور پر مضبوط ہو رہی ہیں اور مسلمانوں کی دینی و ملی اور تہذیبی خصوصیات کو مٹانے کی پیہم کوششوں میں لگی ہوئی ہیں، روس کی کمیونزم ہو یا امریکہ و برطانیہ کی سرمایہ دارانہ جمہوریت یا دوسرے یوروپی ممالک کی آمریت و جارحیت، یہ سب نظریات اور نظامہائے حیات کے زبردست سیلاب ہیں، جو اسلامی تہذیب و ثقافت کو بہا لے جانا چاہتے ہیں، آپ نے دیکھا کہ امریکہ اور اس کی حلیف جماعتوں اور ملکوں نے کس بے دردی کے ساتھ فلسطین ،افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، وہاں کے جنگی طیاروں نے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، عورتوں کو بیوہ بنادیا، بچوں کو یتیم کر دیا، یہی نہیں بلکہ اس وقت جو لوگ بچے کھچے ہیں وہ خوف و دہشت کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
آئے دن ہلاکتوں کے واقعات پیش آرہے ہیں اور اب کرونا وائرس کا خطرناک طوفان بھی بلاخیز ہوچکا ہے، جس کی زد میں انسانیت خس و خاشاک کی طرح بہتی جارہی ہے، تحقیق کہ یہ سب اسی سازش کا حصہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسلام کے نام لینے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے یا کم از کم ان کے رشتے کو اسلام سے کاٹ دیا جائے۔ اس وقت خفیہ طور پر دشمن کی تلوار ایران اور شام کے سروں پر لٹک رہی ہے کب اور کس وقت ان ممالک پر حملہ آور ہو کر ان کو تباہ و برباد کر دے، کچھ نہیں کہا جا سکتا، حقیقت یہ ہے کہ یہ مغربی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی سے باز نہیں آسکتی۔ ، قرآن مجید میں ہے ” یہ لوگ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں دین سے پھیر دیں اگر ان کا بس چلے، ”(البقرہ)
غیر محسوس طریقے پر مسلم قوم کو ٹارگٹ بناکر انہیں ذہنی آزمائش کا شکار بنایا جارہا ہے، یہاں کی فرقہ پرست تنظیمیں اور فاشزم طاقتیں اپنی پوری توانائی صرف کر رہی ہیں کہ مسلمانوں کو کس طرح زک پہنچایا جائے، کبھی ان کے شعائر دین کو نشانہ بناتی ہیں تو کبھی فرقہ وارانہ فسادات کروا کر مسلمانوں کی عزت و آبرو، جان و مال کو تباہ کر رہی ہے۔اگر اس عہد انقلاب میں بھی مسلمانوں نے ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے بدلتے ہوئے رنگ، بڑی طاقتوں کی بدلتی ہوئی حکمت عملی اور بیمار ذہنیت کی سازشوں سے کوئی سبق حاصل نہ کیا تو انہیں مستقبل میں بڑے نامساعد حالات و مشکلات سے گزرنا پڑے گا، یہ خطرات اس بات کا سگنل ہیں کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں۔
دین اسلام کے غلبے اور اس کو نظام حیات کے طور پر نافذ کرانے کے لئے ایک بیدار ملت کی حیثیت سے سوچیں، اپنی صفوں سے فرقوں اور علاقائی حد بندی کو توڑ کر ایک متحد اور انجام بیں قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئیں، باہمی خلوص و محبت اور ہمدردی و خیر سگالی کے جذبات کو ابھاریں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان کلمہ کی بنیاد پر متحد اور منظم ہو جائیں، اپنے اندر فکر و عمل کے اتحاد کو بیدار کریں۔از: سفیان عبدالعزیز قاضی اسلامی نظامِ فکر و عمل میں اجتماعیت اور اس کے عملی تقاضوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، اسلام وہ دین ہے جس نے معاشرتی و اجتماعی تحفظ کو غیر معمولی اہمیت دی ہے، اور افتراق و اختلاف سے دور رہنے کی تلقین کی ہے، اتحاد و اتفاق کا جس قدر پاکیزہ اور شفاف خاکہ اسلام نے دیا ہے آج علم و حکمت کی فراوانی کے باوجود اس کی نظیر نہیں پیش کی جا سکتی۔تاہم اسلام کی تعلیمات روز روشن کی طرح عیاں ھونے کے باوجود امت تفرقہ بازی و انتشار کا شکار کیوں ہے؟۔