عموماً جیل کے حوالے سے یہ تاثر قائم ہے کہ یہاں سوائے ”جرم“ کے کوئی اور معاملات نہیں ہوتے۔درحقیقت ”جرائم کی یونیورسٹی“ کہلانے والی جیل میں قیدیوں کی زندگیوں پر سنجیدگی سے کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ قیدی کس حال میں ہیں، کس طرح اس کی زندگی بسر ہو رہی ہے اور اس کے خاندانوں پر کیا اثرات رونما ہو رہے ہیں؟ اس سے آزاد دنیا کے دانشورلا تعلق ہیں۔قید خانے کی دیواریں کاٹنے کو دوڑتی ہیں، اگر کوئی قیدی خود کو مصروف نہ رکھے۔ اس لیے زیادہ تر قیدی جیل میں آزادانہ گھومنے پھرنے اور وقت گزارنے کے لیے مشقت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح وہ سارا دن مصروف بھی رہتے ہیں اور تھک ہار کر رات بھر سو جاتے ہیں۔ بعض قیدی سکون کے لیے نشہ آور ادویات یا منشیات کی جانب راغب ہوتے ہیں اور ان کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ نشے کے بغیر جیل کاٹنا ناممکن ہے۔
یہ تاثر درست نہیں ہے کہ منشیات کے استعمال کے بغیر جیل نہیں کاٹی جا سکتی اور یہ تاثر بھی درست نہیں کہ جیل میں اسیر قیدی درشت مزاج اور سخت گیر کیفیت کے حامل ہوتے ہیں۔ بظاہر ایسا سمجھا جاتا ہے کہ خطرناک قیدیوں کی آنکھوں میں خون اترا ہو گا، کوئی بات کرے گا تو وہ اس کی جان لے لے گا، بے ضرر قیدی کی روح قبض کر لی جاتی ہو گی۔،غیرہ وغیرہ۔ جیل میں شگوفے بھی نہیں پھوٹتے کہ ہر قیدی خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہو گا،لیکن بعض اوقات بڑے دلچسپ واقعات یادگار بن جاتے ہیں۔
قیدی، کسی بھی جرم میں آیا ہو، اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ کسی کا دباؤ برداشت نہیں کرتا۔ مذہب کے معاملے میں بھی بڑا حساس ہوتا ہے، لیکن ان کے درمیان باہمی اتفاق کا مظاہرہ بھی بڑا متاثر کن ہوتا ہے۔ اسے کسی ڈر و خوف سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ بیرک آؤٹ نہ ہو،لیکن بہرطور یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر جیل کے اندر ایسا ماحول بنا کر دے دیا جائے تو مذہب اور مسلک بھی فروعی بن جاتے ہیں۔ جیلوں کے اندر، مختلف جہادی، مذہبی، فرقہ وارانہ تنظیموں و سیاسی گروپوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کی بڑی کثیر تعداد بھی ہوتی ہے۔ لیکن سب ایک نظم و ضبط کے قاعدے اور لڑی میں میکانکی طور پر جڑے ہوتے ہیں۔
چند واقعات کا تذکرہ کروں گا، جو بیشتر قیدیوں کی مزاج کی عکاسی کرتے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جیلوں میں اسیر قیدی توجہ کے طلب گار ہیں۔ایک بار دوران تدریس قاری صاحب نماز کی شرائط یاد کروا رہے تھے، جن میں 1۔ طہارت۔ 2۔ ستر عورت (ناف سے لے کر گھٹنے تک کے حصے کو ڈھکا ہوا)۔ 3۔ استقبال قبلہ۔ 4۔ وقت۔ 5۔ نیت۔ 6۔ تکبیر تحریمہ۔ اس حوالے سے جب مشق کے بعد قیدیوں سے پوچھا گیا،تو ایک قیدی بھول گیا اور اس نے ”ستر عورت“ کے بجائے ”دوسری عورت“ کہہ دیا۔ قاری صاحب اچھل پڑے کہ کیا، دوسری عورت؟ قیدی سمجھ گیا کہ غلطی ہو گئی ہے تو برجستہ کہا کہ دوسری نہیں تو ”تیسری عورت“ ہو گی۔
عموماً مختلف بیرکوں میں امامت کے فرائض قیدی ہی سرانجام دیتے ہیں۔ چونکہ وہ وقتی امام ہوتے ہیں اس لیے کچھ نہ کچھ غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ باقاعدہ سرکاری امام مساجد کے لیے ہوتے ہیں۔ ایک بار بیرک میں قیدی امام، دوران سجدہ غائب ہو گئے۔ تمام مقتدی تکبیر کا انتظار کرتے رہے لیکن کافی دیر جب جواب نہ ملا تو ایک قیدی سر اٹھا کر چلایا کہ ”ارے امام تو غائب ہے“۔ سب نے تلاش کیا تو پتہ چلا کہ کسی دوسرے قیدی کے گھر کے کھانے کی خوشبو اس سے برداشت نہ ہوئی تو وہ کھانا کھانے چلا گیا۔
ایک بار غسل خانے میں نہاتے ہوئے ایک قیدی کے کپڑے چھپالیے گئے۔ وہ قیدی پہلے شور شرابا اور گالیاں بکتا رہا، لیکن دوسرے قیدی اس کا مذاق اڑاتے رہے اور اسے ویسے ہی باہر آنے کا کہہ کر ہنستے رہے۔ ان کا بنیادی مقصد صرف ہنسی مذاق تھا اور اس سے اپنی شرائط منوانے کی ضد کی گئی، لیکن قیدی بھی چالاک نکلا اور اس نے کہا کہ چلو میرے کپڑے رکھ لو، میں دوسرے کپڑے پہن لیتا ہوں۔ وہ ننگ دھڑنگ نکل آیا جس پر تمام قیدی بھاگ کھڑے ہوئے اور اس نے بیرک میں جا کر دوسرے کپڑے بدل لیے۔اسی طرح ایک قیدی کو اتنا تنگ کیا گیا کہ اسے رات بھر سونے نہیں دیا جاتا۔ وہ روہانسا ہو کر ہاتھ جوڑتا کہ خدا کے لیے بھائی!، اسے سونے دو۔ زیادہ تر قیدی، اپنے ساتھی قیدیوں سے اس قسم کا مذاق بھی کرتے نظر آئے کہ شام کے وقت کسی اہلکار کو کہہ دیا کہ فلاں کا نام لو کہ اس کی ریلیز آئی ہے۔ وہ قیدی خوش ہو کر جب بیرک سے باہر نکلتا اور پوری بیرک ہنس پڑتی اور وہ جھینپ جاتا کہ اسے بے وقوف بنا دیا گیا۔
بعض قیدی مشہور گانوں کی پیروڈی کر کے اسے پولیس پر منسوب کر دیتے اور بعض قیدی، بیرک میں آنے والے نئے قیدی کے ہاتھ میں جگ تھما دیتے کہ فلاں فلاں راستے سے جاؤ اور بھینسوں کے باڑے سے دودھ لے آؤ۔ وہ بچارا جگ لے کر گھومتا گھومتا جیلر کے آفس کے سامنے پہنچ جاتا، پھر ظاہر ہے کہ اس کا مذاق بن جاتا۔ بعض قیدی کورٹ جانے والی گاڑی کی جالیوں سے باہر شہریوں کو تنگ کرنے کی وجہ یہ بناتے کہ وہ غصہ ہو گا اور کہہ اٹھے گا کہ ”ابے! تو باہر نکل میں دیکھ لوں گا“، اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہماری (دعا)نہیں اُن کی سن لی(جائے) اور ہماری ریلیز آ جائے۔ ایک بار برسوں سے قید ایک قیدی نے غلطی سے قبلہ رخ کے برخلاف نماز پڑھ لی، شام کو وہ اچانک ریلیز ہو گیا۔ اگلے دن دیکھا کہ پوری بیرک الٹی نماز پڑھ رہی ہے۔ پوچھا یہ کیا؟ تو جواب ملا کہ فلاں قیدی الٹا قبلہ رخ ہونے پر برسوں بعد رہا ہو گیا۔ ہم بھی اس طرح نماز پڑھ رہے ہیں تا کہ ہم بھی رہا ہو جائیں۔
لاتعداد قصے و شگوفے ثابت کرتے ہیں کہ قیدیوں میں انسانیت زندہ ہے کیونکہ ان میں سادگی اور حس مزاح (بھ)موجود ہے، انھیں صرف توجہ کی ضرورت ہے۔جیلوں انتہائی زبوں حالی کا شکار ہیں، جس سے براہ راست سے قیدی بھی متاثر ہوتے ہیں۔ معاشرے میں اصلاح خانوں کے نام پر عقوبت خانوں میں قیدیوں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جاسکتا ہے یا نہیں اس اَمر پر سنجیدگی سے غور وفکر و عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جیل سے باہر اور اندر بڑھتے جرائم کے واقعات اور جیل خانوں میں جرائم پیشہ گروپوں کے ساتھ ان کے روابط سنگین جرائم کا باعث بن جاتے ہیں،اربابِ اختیار جیلوں کو سزا دی جانے والی عمارت کے ساتھ حقیقی معنوں میں اصلاح خانے بنانے کی جانب توجہ دینا معاشرے کے حق میں بہتر ہو گا۔