لبنان (اصل میڈیا ڈیسک) لبنان اور اسرائيل حالت جنگ ميں ہيں مگر بحيرہ روم کے گيس سے مالا مال سمندری علاقے پر ديرينہ تنازعے کے حل کے ليے بدھ 14 اکتوبر سے مذاکرات شروع کر رہے ہيں۔ لبنانی اقصاديات کے ليے اس وقت يہ کافی اہميت کا حامل ہو سکتا ہے۔
لبنانی اور اسرائيلی حکام بحری تنازعے کے حل کے ليے بدھ 14 اکتوبر کو بات چيت کر رہے ہيں۔ يہ مذاکرات جنوبی لبنان ميں تعينات اقوام متحدہ کے امن دستوں کی ميزبانی ميں ہو رہے ہيں۔ مذاکرات اقوام متحدہ کی فورس UNIFIL کے اڈے پر ہو رہے ہيں۔ 22 سال تک قابض رہنے کے بعد اسرائيلی افواج سن 2000 ميں جنوبی لبنان کے اس علاقے سے پيچھے ہٹ گئی تھيں۔ تب سے اقوام متحدہ کے امن دستے اس علاقے ميں تعينات ہيں۔
يہ مذاکرات امريکا کی تين سال سے جاری سفارت کاری کا نتيجہ ہيں۔ لبنان اور اسرائيلی حکام کے مابين مذاکرات ايک ايسے وقت پر ہو رہے ہيں جب قريب ايک ماہ قبل ہی متحدہ عرب امارات اور بحرين نے اسرائيل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کيے ہيں۔ سياسی مبصرين مشرق وسطیٰ ميں حاليہ پيش رفت کو امريکا کی خطے ميں اپنے قريب ترين اتحاديوں کو اکھٹا کر کے روايتی حريف ايران کے خلاف ايک محاذ کھڑا کرنے کی کوشش قرار ديتے ہيں۔
اسرائيل کی سخت مخالف لبنانی شيعہ عسکری تنظيم حزب اللہ کی جانب سے کہا گيا ہے کہ اسرائيل کے ساتھ يہ مذاکرات قيام امن کے ليے نہيں ہيں۔ حزب اللہ نے اسرائيل کے خلاف سن 2006 ميں پانچ ہفتوں پر محيط جنگ بھی لڑی تھی۔ دوسری جانب اسرائيلی وزير توانائی يووال اسٹائنٹز نے کہا ہے کہ بات چيت سے حقيقت پسندانہ اميديں ہی رکھنی چاہييں نا کہ کسی بڑی پيش رفت کی توقع کی جائے۔ اسٹائنٹز نے اپنی ايک ٹوئيٹ ميں لکھا، ”ہم قيام امن اور تعلقات کے قيام پر بات چيت نہيں کر رہے۔ يہ مذاکرات ايک تکنيکی و معاشی مسئلے کے حل کے ليے ہيں، جو آف شور قدرتی وسائل کے شعبے ميں ترقی کی راہ ميں دس سال سے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔‘‘
دوسری جانب امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو نے اسے ايک تاريخی پيش رفت قرار ديا ہے۔ پومپيو نے عنديہ ديا کہ بدھ کو ہونے والے مذاکرات کے بعد ممکنہ طور پر واشنگٹن حکومت سرحدی تنازعے پر بھی بات چيت کی ميزبانی کر سکتی ہے۔
سمندری حدود پر اختلافات کی وجہ سے اس علاقے ميں تيل اور گيس کی تلاش کا کام ايک عرصے سے معطل ہے۔ يہ شايد اسرائيل کے ليے اتنا بڑا مسئلہ نہ ہو جو کہ سمندر سے وسيع پيمانے پر تيل اور گيس کے ذخائر پہلے ہی حاصل کر رہا ہے مگر لبنان کے ليے يہ اس وقت بہت اہميت کا حامل ہے۔
لبنان کو اس وقت سن 1975 اور سن 1990 کے درميان جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد کے بد ترين اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ لبنانی کرنسی کی قدر بھی بہت زيادہ گر چکی ہے۔ علاوہ ازيں کورونا کی وبا اور ايک حاليہ بم دھماکے نے بھی ملکی معيشت کی کمر توڑ دی ہے۔ ساتھ ہی سياسی سطح پر بھی عدم استحکام جاری ہے۔
کارنگی مڈل ايسٹ سينٹر سے وابستہ فيلو مھند الحاج علی کے مطابق حزب اللہ اور اس کی سياسی اتحادی جماعت امال پارٹی کے ليے بات چيت پر رضامندی وقت کی مصلحت ہے۔ يہ کشيدگی ميں کمی اور امريکی پابنديوں سے بچنے کے ليے ايک سمجھوتہ ہے۔