ایک زمانہ تھا کہ پاکستان پر ڈاکوئوں کی حکومت تھی ڈاکو بھی ایسے تھے کہ لوٹتے بھی تھے مگر کسی کو تکلیف ہو جائے تو بھر انتظامیہ کی شامت آ جاتی تھی یہ انہیں کے دور کی میں ان دنوں اپنے زریعہ معاش کے لئے ایک گاڑی چلایا کرتا تھا ہائی ائس گاڑی میرے مرحوم دوست استاد بجلی کی تھی استاد بجلی کا تعلق شعیہ مسلک سے تھا اس لئے 7محرم سے 10محرم تک ہمیں گاڑی چلانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی ہم 9 محرم کو میانی ان کی دکان پر آئے تو انہوں نے گاڑی کی مرمت کے بعد گاڑی ہمارے حوالے کی کہ گاڑی اپنے گھر لے جائو میرے ساتھ موضع منارہ کا سفیر نامی کنڈیکٹر تھا جس نے وہاں سے نکلتے ہی خوشاب خوشاب کی آوازیں لگانا شروع کر دیں۔
میرے منع کرنے پر اس نے کہا کہ پیل تک جائیں گے اور سواریاں کسی دوسری گاڑی کو دے کر واپس آ جائیں گے مجھے منارہ ڈراپ کرنا اور خودگاڑی لے کر گھر آ جانا بادل نخواستہ میں نے اس کی بات مان لی مگر جب ہم پیل پہنچے تو وہاں کوئی گاڑی نہ تھی ہم نے اچھا نہ سمجھا کہ سواریوں کو اتار دیا جائے ہم نے فیصلہ کیا کہ پیل چوک جا کر دیکھتے ہیں کوئی گاڑی مل جائے گی اور ہم سواریاں اسے دیں گے اس روز ٹریفک مکمل بند ہونا شروع ہو جاتی ہے اس لئے وہاں بھی ہمیں کوئی گاٹی دستیاب نہ ہوئی اور ہمیں خود خوشاب جانا پڑا جونہی ہم کٹھہ چوک خوشاب پہنچے تو الڑٹ پولیس جوانوں نے ہمیں دبوچ لیا سپاہی سے تو تکرار ہو گئی مگر سارجنٹ نے ہمیں جانے دیا مجھے اپنے کیمرہ کی لیڈ چاہیے تھی میں نے سوچا کہ ہم خوشاب تو آ ہی گئے ہیںلہذا لیڈ بھی خرید ہی لی جائے میں بازار کی جانب گیا تو اڈا مالکان نے باہر کھڑے ٹریفک پولیس اہلکاروں کو ہماری آمد کی اطلاع کر دی۔
جونہی ہم اڈا سے باہرآئے تو اعجاز شاہ نامی پولیس سارجنٹ نے ہمیں دبوچ لیا میں نے اسے بتایا کہ میں کیمرہ کی لیڈ خریدنا چاہتا تھا مگر اس نے ہماری ایک نہ سنی اور ہمارے ساتھ بدتمیزی پر اتر آیا تو ہمارے ساتھ پیل کی اکلوتی سواری نے اپنی جیب سے سو کا نوٹ نکال کر دے دیا سارجنٹ نے یوں طنز کی جیسے کوئی قلعہ فتع کر لیا ہو میں نے راستے میں اسے سو روپے واپس کئے اور فیصلہ کیا کہ شام کو گھر پہنچتے ہی ڈاکوئوں کو اس ساری خبر سے مطلع ضرور کروں گا گویا میں نے ایسا ہی کیا جونہی پیغام ان ڈاکو حکمرانوں تک پہنچا مجھے کال موصول ہوئی اور فون پر ایک مرتبہ پھر ساری کہانی دہرائی گئی 11محرم کو میں چکوال سے واپس آیا توخوشاب پولیس کا اہلکار لاری اڈا پر میرا منتظر تھا میں جونہی بوچھال پہنچا تو اس نے ہوٹل والے نے میری آمد کی اطلاع کی اس نے مجھے لیٹر تھمایا کہ اس پر دستخط کرو تمیں ایس پی نے یاد کیا ہے میں نے لیٹر پڑھا اور دستخط کر کے اسے کل آنے کو کہا میں ایس پی خوشاب کے پاس پہنچا اور انہیں بتایا کہ میں کون ہوں اور ااپ نے یاد فرمایا ہے جس پر انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ میں تمیں کیوں یاد کروں گا میں واپس آگیا تین دن گزر گئے مجھے فون آیا فون پر ڈاکو خود بول رہا تھا کہ کیا بنا تماری شکایت کا مین نے سارا ماجرا سنا ڈالا پانچویں روز جب میں بوچھال اایا تو خوشاب پولیس کی گاڑی وہاں موجود تھی جنہوں نے مجھے ارسٹ کر کے فرنٹ سیٹ پر بیٹھایا راستے میں مجھے بوتلیں وغیرہ پیش کیں۔
جب ہم ایس پی آفس آئے تو اعجاز شاہ سمیت تمام وہ پولیس والے وہاں وردی میں موجود تھے میرے آتے ہی ا نہوں نے مجھے چائے پیش کی اور پھر بتایا کہ اگر تم نے ہمیں معاف نہ کیا تو آج ہماری نوکری کا آخری دن ہے میں دفتر گیا تو ایس پی نے معذرت کی اور چائے منگوائی کہ اس روزمیں نے آپ کو واپس کیا تھا پولیس والوں کو بلایا گیا اور مجھے کہا کہ ااج ان کی زندگی تمارے ہاتھ میں ہے انہیں معاف کرو یا،،،؟ میں رپورٹ لکھ کر بھیج دونگا اس نے مجھے فیکس دیکھائے جو ہر روز ایک آتا ہے آج وارنگ لیٹر آ گیا ہے ایک طرف ان کی نوکری اور دوسری طرف میری نوکری کا مسلہ ہے میں نے جب پولیس والوں کی جانب دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ چکے تھے میں نے انہیں معاف کر دیا اور لیٹر پردستخط بھی کر دئیے آپ یقین جانئیے میں جب بھی خوشاب جاتا یا میرا نام کہیں آ جاتا پولیس والے مکمل پروٹو کول دیتے تھے یہ تھا پرا نا پاکستان اور اس کے ڈاکو حکمرانوں کی کہانی جو ان کے دور کی اور بھی کہانیاں ہیں مگر پھر کبھیاب نئے پاکستان کے فرشتہ سیرت حکمرانوں کی بھی سن لیںیہ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے جب ان کی حکومت آچکی تھی مجھے رورل ہیلتھ سینٹر بوچھال کلاں جانے کا اتفاق ہوا میری بیوی بیمار ہو گئی جب ہم وہاں پہنچے تو حالات تبدیل ہو چکے تھے۔
قبل ازیں یہاں ایسا نہیں ہوتا تھا شام کا وقت تھا لب و لہجے تبدیل دوائی نام کی کوئی چیز نہیں خیر ہم نے شور مچایا کچھ دنوں بعد ادویات کچھ نہ کچھ ملنے لگیں مگر تجربات شروع ہو گئے جن کی زد میں میں بھی آیا اور میری اہلیہ کے دن پورے ہو گئے ہم نے رضا سمجھ کر بات ختم کر دی ان صرف فرشتہ لوگوں کی بات ہو رہی ہے تو بات کر دی میں گائے بگاہے ہسپتال بھی جاتا رہا عوامی شکایات کو خبر بنا بھی دیتے مگر ان کا کچھ ہوتا نہیں تھا ان کے حوصلے بلند ہو گئے میں ایک روز شام کے وقت اپنی بیٹی کو جسے بخار تھا مذکورہ ہسپتال لے کر گیا تو وہاں کا سارا سسٹم ایک ڈسپنسر چلا رہا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہکوں ہوں اس نے مجھے مفت مشورہ دیا کہ زندگی کی بڑی نعمت اور کون سی ہوتی ہے آپ ٹراما سینٹر چلے جائیں میں نے اس سے پوچھا کیوں کیا یہاں ڈاکٹر نہیں تو اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ہمیں دو گولیاں دیں اور کل آنے کا مشورہ دیا اس دوران ایک شخص وہاں آ گیا جسے شائد کسی چیز نے کاٹ لیا تھا اس سے بھی یہی کہا گیا میں واپس آیا تو افسران بالا کو اس کے رویہ کی اطلاع دی شائد انہوں نے اسے آشیر باد دی کہ اسے مارا کیوں نہیں اس کی کیا جرات کہ اس نے ہسپتال کے بارے میں ایسی حرکت کی چند دنوں بعد دوبارہ مجھے ہسپتال آنے کا اتفاق ہوا اس روز بھی یہی کچھ تھا مگر وہ ڈسپنسر نہیں تھا بلکل ایسا ہی ہوا ہمیں دو گولیاں دے کر کل آنے کا مشورہ دیا دو گولیوں سے مجھے چڑ سی ہو گئی میں نے فوی طور پر خبر کے ساتھ دو گولیاں بھی لگا دیں ٹی وی پر بھی کوریج آ گئی پھر کیا تھا کہ ڈسپنسر بھائی تو مشتعل ہو گئے مجھے خوب گالیوں سے نوازا میں نے جنرل منیجر خرم دستگیر کو واقع کی اطلاع دی مگر شائد،،،،؟ خبریں چلیں جواب وہی چند روز قبل میری بیٹی جو ایف اے پاس کرنے کے بعد مقامی درس میں تعلیم حاصل کر رہی ہے کی دارح میں درد ہوا تو میں اسے سرکاری ہسپتال لے کر گیا جہاں ڈاکٹر نے انجیکشن دئے انجیکشن لگوانے کے بعد اس کی قوت گفتار چلی گئی اور اسے شدید بخار بھی ہو گیا۔
میں شام 4بجے اسے لے کر مذکورہ بالا ہسپتال آ گیا وہاں ایک LHVڈیوٹی پر تھی جس نے بخار چیک کیا اور مجھے بتایا کہ اسے بہت زیادہ بخار ہے اس نے قریب بیٹھی نرس سے پوچھا کہ میم ہیں انہوں نے نفی میں سر ہلا دیا تو اس خاتوں نے ہمیں گھر جا کر پٹیاں کرنے کا مشورہ دیا اس نے بدتمیزی نہیں کی اس کے چہرے سے مجبوری کے آثار صاف دیکھے جا سکتے تھے میں نے گھر آ کت اسسٹنٹ جنرل منیجر محمد خان کو ساری کہانی سنائی مگر کچھ نہ ہونا تھا نہ ہوا میری بیٹی تمام رات بخار میں جلتی رہی اور ہمارا پورا گھر اس رات گویا آگ پر لوٹتا رہامیں نے رات کو اپنی فریاد میڈیا پر چلائی تو ڈاکٹر ثاقب نے مجھے کہا کہ میں اسے ہسپتال لے کر جائوں اس سے قبل میں نے ڈاکٹر نعمان کو فون کرنے کی کوشش کی مگر جب کامیاب نہ ہوا تو میں نے واٹس ایپ پر میسج چھوڑا جو اگلے چند سیکنڈ میں انہوں نے پڑگ تو لیا مگر شائد جواب دینا بہتر نہ سمجھا اگلے روز ہم جلتی تپتی بیٹی کو لے کر ٹراما سینٹر کلر کہار پہنچے اس وقت بھی اسے104ڈگری بخار تھا وہ اسے لے کے وارڈ میں گئے ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہو گی ہم نو بجے سے بارہ بجے تک وارڈ کے باہر موجود رہے۔
مجال ہے کہ کسی نے کوئی بات کی ہو ہمیں تسلیاں دیں اور دن بارہ بجے جب بخار ختم ہوا تو انہوں نے علاج کے بعد ہمیں گھر جانے اور پھر بخار کی صورت میں پٹیاں کرنے کو کہا آج میری بے زبان بیٹی تو حکمرانوں سے فریاد کر رہی ہے مگر ہسپتال والے کامیاب تجربے پر شائد خوشی کے شادیایانے بجا رہے ہیں یہ ہے نیا پاکستان جس پر فرشتے حکمران ہیں ان کا خواب ہے کہ پاکستان کو ،،،،،،،،؟ جہاں ہر برائی موجود ہو بنا کر چھوڑیں گے بھوک افلاس تو وطن عزیز کے باسیوں کی قسمت میں لکھی ہی جا چکی ہے اب یہ حال جو میرے ساتھ ہوا نہ جانے کتنے لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں اب بتائیں ہم کس سے فریاد کریں کس کو اپنی کہانی سنائیں کیا میری بیٹی جسے معذور بنا دیا گیا ہے ،،،،،،،،،؟