پروفیسر صغیر افراہیم یوں تو فکشن کے نقاد کی حیثیت سے بالخصوص اور اردو شاعری اور غیر افسانوی نثر سے متعلق بالعموم اپنی شہرت رکھتے ہیں، لیکن ایک تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے طویل اور گہری نسبت کے سبب اور دوسرے کچھ عرصے تک رسالہ ‘تہذیب الاخلاق’ کے مدیر ہونے کی وجہ سے انھوں نے سرسید اور علی گڑھ اور ان کے متعلقات پر متعدد اہم مضامین لکھے ہیں۔ یہ کتاب (عصرِ حاضر میں علی گڑھ تحریک کی اہمیت ومعنویت) در اصل اسی نوع کے مضامین کا ایک عمدہ انتخاب ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے نہ صرف یہ کہ سرسید تحریک کو موضوع گفتگو بنایا ہے بلکہ اس تحریک کے حوالے سے ڈپٹی نذیر احمد، شبلی نعمانی، علامہ اقبال اور محمد حسین آزاد کی علمی اور ادبی شخصیات بھی تفصیل سے زیر بحث آئی ہیں۔ مصنف نے اس ضمن میں ایک بہت اہم علمی اور تحقیقی مضمون ”تحریک آزادی میں علماء کرام کاحصہ” کے عنوان سے اپنا ایک قابل مطالعہ اور بحث طلب مضمون بھی شامل کیا ہے۔
ہندوستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے رول کو ہی پوری طرح نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے چہ جائے کہ علماء کرام اور تحریک آزادی کو موضوع گفتگو بناکر صغیر افراہیم کی طرح علمی اور تحقیقی گفتگو کی جائے۔ بہ ظاہر تو ایسا تصور کیاجاتا ہے کہ گزشتہ دو تین سوبرسوں میں علماء کرام نے مدارس میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دینے، مذہبی قیادت کی ذمہ داریوں کو نبھانے اور دنیاوی سرگرمیوں سے لاتعلق ہوکر اسلامی شعائر کی تبلیغ کرنے کے علاوہ ہندوستان کی سماجی اور ثقافتی زندگی میں کوئی بڑا اہم کردار نہیں ادا کیا۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے اپنے اس مضمون میں علماء کے مناظروں سے لے کر، ریشمی رومال کی تحریک اور عملی طور پر علماء اور مشائخ کی سیاسی اور قائدانہ سرگرمیوں کا بہت سلیقے سے جائزہ لیا ہے۔
ہندوستان میں جمعیة العلماء کی تحریک رہی ہو، مذہبی قیادت کو سیاسی قیادت کے نعم البدل کے طور پر استعمال کرنے کامسئلہ رہا ہو یا کالا پانی سے لے کر مالٹا تک علماء کرام کی زندانی زندگی کی روداد رہی ہو، ہر جگہ علماء کا کردار نہایت بے داغ اور مہتم بالشان نظر آتاہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی، شیخ الہند، شیخ الاسلام محمدحسین مدنی، محمد علی جوہر، مولانا فضل حق خیرآبادی اور بہت بعد کے زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا احمدسعید ملیح آبادی کے اسماء گرامی اس سلسلے میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مصنف نے ان نمائندہ علماء میں سے بعض کی سیاسی اور ثقافتی سرگرمیوں کو تحریک آزادی کے سیاق وسباق میں رکھ کر نہایت عمدہ انداز میں تجزیہ کیا ہے اور بعض معنی خیز نتائج تک رسائی حاصل کی ہے۔
صغیر افراہیم صاحب نے چوں کہ اپنی ادارت میں رسالہ ”تہذیب الاخلاق” کے نہ صرف یہ کہ متعدد شمارے شائع کیے ہیں بلکہ اپنی ادارت کے زمانے میںلگاتار ”تہذیب الاخلاق” کے اجراء کے اغراض ومقاصد پر مبنی اداریے بھی لکھے ہیں اور وقتاً فوقتاً سرسید، علی گڑھ،سائنٹفک سوسائٹی اور سرسید احمد خاں کے لکچرز کے ساتھ سرسید احمد خاں کی تصانیف پر بھی توجہ مرکوز رکھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس موضوع پر کتاب کی اشاعت کی غرض سے اپنے مضامین کاایک عمدہ انتخاب تیار کرنا پڑا جو آپ کے سامنے ایک مربوط اور منظم صورت میں پیش کی جارہی ہے۔
اس کتاب میں سرسید احمد خاں کی دو اہم تصانیف ”تاریخ سرکشی بجنور” اور”اسباب بغاوت ہند” کے حوالے سے نوآبادتی مفاہمت اور مزاحمت کے حوالے سے ایک اہم اور قابل مطالعہ مضمون شامل کیاہے۔ راقم الحروف کو امتیازی طور پر ان کے اس مضمون نے خاصا متاثر کیا اور اندازہ ہوا کہ موصوف نے مابعد نوآبادیاتی نقطۂ نظر کی اہمیت کو نشان زد کرتے ہوئے نوآبادیاتی صورت حال کے ساتھ سرسید کی مفاہمت کے حدود اور مزاحمت کے امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے پورے لائحہ عمل کی شیرازہ بندی اور اس شیرازہ بندی کی نزاکتوں کو نشان زد کرنے کی کوشش کی ہے۔ زیر بحث مضمون اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ سرسید اور ان کے بیش تر معاصرین کو نوآبادیاتی ہیبت اور مرعوبیت کاشکار ثابت کرنے میں گزشتہ دنوں متعدد لکھنے والوں نے اپناخاصا زور قلم صرف کیا ہے۔ صغیر افراہیم نے اس پورے معاملے کو ایک متوازن اور معتدل زاویہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
یوں تو زیر بحث کتاب ”عصر حاضر میں علی گڑھ تحریک کی اہمیت ومعنویت” کا دائرہ کار اس میں شامل متنوع موضوعات پر مبنی مضامین کے باعث بہت پھیلا ہوا ہے مگر متذکرہ معروضات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پروفیسر صغیر افراہیم نے ایک محتاط نقاد اور انصاف پسند ادیب کی حیثیت سے کیاکیا موقف اختیار کیے ہیں۔ راقم الحروف اس مختصر سی تحریر کے ساتھ مصنف کو ان کی اس اہم کاوش پر مبارکباد پیش کرتاہے۔