پاکستان کے پہلے وزیر اعظم، شہیدِ ملت نواب لیاقت علی خان بانیان ِپاکستان قائد اعظم کے دست راس تھے۔ لیاقت علی خان ریاست کرنال کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آبائواجداد ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے تھے۔ وہ اپنے خاندان کو ایران کے عادل حکمران، نوشروان سے جوڑتے ہیں۔ وہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے شریک کار تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے جرنل سیکرٹیری تھے۔ پاکستان بننے سے کچھ پہلے ہندوستان کے وزیر خزانے تھے۔ ایک مثالی بجٹ پیش کر کے اپنوں اور پرائوں سے داد تحسین وصول کر چکے تھے۔ قائد اعظم کے ساتھ مل کر آفاقی دوقومی نظریہ کے تحت پاکستان حاصل کیا تھا۔ قائد اعظم ایک زیرک انسان تھے۔ وہ شروع دن سے سمجھ گئے تھے کہ انگریز کے برعظیم سے رخصت ہو جانے کے بعد ہندوئوں نے اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں کو دبا کر رکھنے کا پروگرام ترتیب دیا ہوا ہے۔ اس طرح وہ مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔
قائد اعظم نے یہ سازش اُس وقت بھانپ گئے تھے جب وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں آنے سے پہلے آل انڈیا کانگریس میں تھے۔ اس سے قبل دو قومی نظریہ کو سرسید احمد خان، علامہ اقبال اور دوسرے مسلم اقابرین سمجھ کر اس پر عمل پیرا تھے۔ ویسے بھی یہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ہندو قوم تنگ نظر ہے۔ ان میں یہودیوں کے جراثیم کثرت سے داخل ہیں۔ یہ جراثیم یہودی و نسل آریائوں سے ہندوئوں میں منتقل ہوئے تھے۔ یہ بات ہمیں بھی ایک واقعہ سے معلوم ہوئی ۔ ہم نے ایک مضمون اخبارات میں پڑھا۔جو یوم پاکستان کے حوالے سے اخبارات میں شائع ہوا تھا۔سعودی عرب کے پاکستانی سفارت خانے میں یوم پاکستان کی تقریبات میں ایک عربی تاریخ دان نے تقریر کے دوران حاضریں میں یہ انکشاف کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کر دی۔
مسلمانوں کے عروج کے دوران یہ عرب سیاح ہندوستان گیا تھا۔اس نے اپنے سفر نامہ میں یہ تحریر کیا ہے۔ ہند ومذہب کے معاملے میں سخت قسم کے متعصب ہیں۔ وہ کسی بھی دوسری قوم کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جب تک وہ کسی قوم کے غلام نہ ہوں۔ جیسے اُس وقت ہندوستان پر مسلمان حکمران تھے۔ سیاح نے لکھا ہے ہندو دوسری قوم کواچھوت یعنی ناپاک سمجھتے ہیں۔ان کے کھانے پینے دوسروں سے الگ۔ رہنا سہنا الگ، تہذیب تمدن الگ، معاشرت الگ، مختصر یہ کہ وہ ہر معاملے میں دوسروں سے الگ تھلگ ہیں۔ عرب سیاح نے اپنے سفر نامے میں لکھا کہ ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو ہنددئوںسے الگ ہی ہونا ہے۔
صاحبو!ہندوئوں نے کو یہ ساری باتیں ، آریائوں،جو خود یہودی النسل تھے سیکھائی ہیں۔ اس سے پہلے ہندوستان کے اصلی اور قدیم باشندے دراوڑ تھے، جو ایک بے ضرر قسم کی قوم تھی۔ آریا وسط ایشیا سے آکر ہندوستان پر قابض ہوئے تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی قدیم آبادی دراوڑوں کی زمینیں چھین کر انہیں شودر بنا تھا ۔ ذات پات کا نظام قائم کرکے قدیم آبادی پر حکومت کرتے رہے۔ پھر عرب مسلمان موجودہکراچی سے ملتان تک کے علاقے پر قابض ہوئے۔مسلمانوں نے ہندوستان پر مجموعی طور پر عرب محمد بن قاسم سے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک ہزار سال سے زیادہ حکومت کی ۔ اسلام امن و شانتی والا دین تھا۔ مسلم حکمرانوں نے ہنددئوں کو مذہبی آزادی دی ہوئی تھی۔ علمائے اسلام کی تبلیغ سے ہندوستان کے عوام دین اسلام میں جوق در جوق شامل ہوئے۔
اسی تاریخی حقیقت کو قائد اعظم نے استعمال کیا ۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد ڈالی۔ برعظیم کے مسلمانوں نے اس پر لبیک کہا اور دنیا میں اس وقت کی سب سے بڑی اسلامی مثل مدینہ ریاست پاکستان وجود میں آئی۔ قائد اعظم نے برعظیم کے مسلمانوں کو کلمہ” لا الہ الااللہ” کے نام پر ا کٹھا کیا۔ پھر اللہ نے اپنی سنت پر عمل کرتے ہوئے مسلمانان ِ بر عظیم کو ہندوئوں اورانگریزوں کی ریشہ دوانیوں کے باجود اس شرط کہ وہ اس نئی مملکت میں اللہ کے کلمے کو بلند کرتے ہوئے اسلامی نظام ِحکومت قائم کریں گے پاکستان کا تحفہ دیا۔
قائد اعظم نے اسلامی نظامِ حکومت کی بنیاد رکھنے کے لیے اپنی زندگی میں ہی” ریکنسٹرکشن آف اسلامک تھاٹ ” ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ جس کو پاکستان میں انگریزوں کے نظامِ حکومت کو تبدیل کر کے اسلامی نظام ِحکومت قائم کرنا تھا۔اللہ نے قاعد اعظم کو جلد اپنے پاس بلا لیا۔ یہ کام پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سر پر آ گیا۔ لیاقت علی خان نے قرارادار پاکستان جو پاکستان کی بنیاد ہے کو آئین پاکستان کے دیباچے میں شامل کرکے اس کی بنیاد رکھی۔ اس کے تحت پاکستان کے آئین کو اسلامی بنانا تھا۔ اسلام کے خلاف کوئی بھی قانون نہیں بن سکتا۔ لیاقت علی خان قائد اعظم کی طرح پاکستان میں اسلامی نظام ِحکومت قائم کرنے میں مخلص تھا۔ مگر پاکستان میں اسلام دشمن کیمونسٹ کی طاقت ور لابی کے اہل کاروں نے لیاقت علی خان کو راستے رے ہٹاتے ہوئے راولپنڈی لیاقت باغ میں جلسے کے دوران فائر کر کے شہید کر دیا۔
٢ لیاقت علی خان ریاست کرنال کے نواب تھے۔ چاہتے تو کلیم داخل کر اپنے لیے شاندار رہائیش بنا سکتے تھے۔ مگر پاکستان میں لٹے پٹے ہجرت کر کے آنے والوں قافلوں کے گھروں کے انتظامات میںلگئے رہے ۔ اپنے گھر کے لیے کوئی بھی کلیم داخل نہیں کیا۔ جب شہید ِ نواب ملت لیاقت علی خان کو غسل دینے کے لیے کپڑے اُتارے گئے تو معلوم ہوا کہ ایک ریاست کے نواب کی بنیان تک پھٹی ہوئی ہے۔ ان کے بعد سکندر مرزا اور ایوب خان کی ملی بھگت سے پاکستان کو اسلام سے دور کر دیا گیا۔ ڈکٹیٹر نے اپنے آقائوں کے کہنے پر سب سے پہلے مسلمانوں کے عالی قانون کو تبدیل کیا۔
مسلمان قوم جب اسلام پر قائم تھی تو ساری دنیا کے ہزاروںتہذیبوں، تمدنوں،ثقافتوں اور زبانوں پر کو یک جان رکھ کر ہزاروں سال حکومت کرتے رہے۔لیکن لیاقت علی خان کے بعد مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے ایک بنگالی قوم کے مسلمان بھائیوں کو مطمئن نہ ر کھ سکے۔ غدارِپاکستان اور اگر تلہ سازش کے سرغنہ شیخ مجیب نے بنگالی قومیت اور حقوق کے نام پر بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے ۔ ایک اسلامی ریاست مثل مدینہ پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کی پادائش میں، تاریخ نے شیخ مجیب کو اُٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ بنگلہ دیش کی اسلام پسند فوج کے ایک دستے نے سارے خاندان کو ختم کر دیا۔ اے کاش !کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کچھ مدت اورزندہ رہتے تو آج پاکستان دنیا کی قوموں میں ایک منفرد حیثیت کا مالک ہو تا۔ اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھر دے آمین۔