افغانستان میں جنگ بندی و تشدد کے خاتمے کے لئے بین الافغان مذاکرات کے ابتدائی ایجنڈے پرتادم تحریر اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا۔ دونوں فریقین کے رابطہ گروپ کے درمیان تسلسل کے ساتھ ملاقاتیں کررہے ہیں تاہم ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے دردِ سر مرحلہ سست روئی کا شکار ہے۔ عالمی برداری افغانستان میں، افغان طالبان کے کردار پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے ابھی تک جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا اور کابل انتظامیہ کی جنگی پوسٹوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ اپنے اُن علاقوں میں بھی تیزی سے پیش رفت شروع کردی ہے جنہیں اتحادی فوجیوں نے اپنے قبضے میں لیا تھا۔
ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ کے مضافات میں افغان طالبان و کابل انتظامیہ کے درمیان شدید معرکہ اسی نوعیت کا جاری ہے،جس میں افغان سیکورٹی فورسز کو اُن علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑ رہے ہیں جو انہوں نے اتحادی فورسز کے ساتھ مل کر واپس لئے تھے۔ یہ ایک بڑی گھمبیر صورتحال بن چکی ہے کہ ایک جانب بین الافغان مذاکراتی عمل میں رابطہ کار گروپ و افغان طالبان کے درمیان مستقبل کے ایجنڈے پر کام کیا جارہا ہے تو دوسری جانب فریقین کے درمیان جنگ میں شدت بھی آتی جا رہی ہے۔افغان طالبان نے افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہوا ہے کہ جب تک امریکی نظام مملکت میں موجود ہے، اس کے خاتمے تک جنگ بندی نہیں کی جاسکتی۔
امریکی افواج و افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف افغان طالبان کی پس پردہ مدد میں ایران کو اہم کردار کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ماضی کی افغان طالبان حکومت اور ایران کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ رہے تھے، تاہم امریکا کی ایران کی سرحدوں پر موجودگی کے بعد افغان طالبان کو دی جانے والی کمک پر سعودی عرب اور امریکا کو شدید تحفظات رہے ہیں، افغان طالبان نے کسی ایک ملک پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی سیاسی ونگ کو سفارتی محاذ پر متحرک رکھا اور امریکا مخالف ممالک، بالخصوص روس، چین اور ایران کے ساتھ قربت میں اضافہ کیا۔ اس’غیر فطری بلاک‘ سے امریکا پر دباؤ بڑھا جو دوحہ معاہدے کا اہم سبب بننا بھی قرار پایا۔
افغان طالبان کی جانب سے اسلامی نظام (حنفی مسلک کے مطابق) نفاذ کے مطالبے و عندیہ پر پڑوسی ملک کی جانب سے سخت ردعمل بھی سامنے آچکا ہے،جس میں پہلے بھی کہا جاچکا تھا کہ افغان طالبان کو پورے افغانستان میں حکومت کی کھلی آزادی نہیں دی جاسکتی۔ گذشتہ دنوں ایک بار پھر افغان طالبان کو ایران کی جانب سے ڈکٹیشن دیئے جانے پر افغان طالبان کے جہادی حلقوں میں سخت ردعمل سامنے آیا، بیان میں کہا گیا کہ ‘ہمسایہ ممالک کو کابل حکومت کے لہجے میں بات کرنے کا حق نہیں ہے۔
افغان جانتے ہیں کہ مذاکرات کیسے کرنے ہیں اور وہ آئین اور مذاکرات کے اصولوں سے واقف ہیں۔’افغان طالبان کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘اقلیت، اکثریت، زبان، شریعت، قوانین، مذاکراتی طریقہ کار اور باقی تمام مسائل افغانوں کے آپسی معاملات ہیں۔ ہمسایہ ممالک کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے جو بظاہر تعاون کے عکاس ہیں لیکن یہ اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہیں۔’افغان طالبان کی جانب سے یہ واضح پیغام نہ صرف ایران کے لئے اہمیت کا حامل ہے بلکہ مستقبل کے لئے بھی خارجہ پالیسی کو واضح کرتا ہے۔ افغان امن کونسل کے سربراہ بھی ایران کو باور کراچکے ہیں کہ اس قسم کے متنازع بیان امن مذاکرات کی کامیابی میں رکاؤٹ بن سکتے ہیں لہذا انہیں گریز و احتیاط کرنی چاہیے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ بھارت کو افغانستان میں اپنا کردار بڑھانے کے لئے آگے لانے کی خواہش مند ہے، افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے ’دی ہندو‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ انڈیا کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات کرنی چاہیے۔خیال رہے کہ بھارت خطے میں وہ واحد ملک ہے، جس کے افغان طالبان کے ساتھ باضابطہ رابطے نہیں ہیں۔اس سے قبل بھی امریکی حکام، بھارت کو افغانستان میں فوجی مداخلت کی دعوت دے چکے ہیں۔افغانستان میں جاری جنگ میں شدت کی کمی کے لئے ضروری ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا باقاعدہ دور شروع کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق دو نکات، جن پر اختلاف ہیں ہنوز باقاعدہ مذاکرات کے تعطل کا باعث بنے ہوئے ہیں، افغان طالبان کی جانب سے حنفی مسلک کے مطابق اسلامی نظام اور کابل انتظامیہ کی جانب سے باقاعدہ مذاکرات سے قبل جنگ بندی کے مطالبات کے حل کے لئے فریقین کو ایک ایسا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، جس کا فائدہ دوبارہ ایسی عالمی قوتیں نہ اٹھائیں اور افغانستان میں امن کا دور شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے۔ اگرچہ اب بھی عراق، شام اور افغانستان میں امریکہ کے ہزاروں فوجی موجود ہیں، لیکن امریکہ کو طویل جنگوں سے نکالنے کے لئے امریکی صدر اپنی انتخابی مہم میں عوام سے وعدہ کرچکے ہیں جسے وہ پورا بھی کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے سامنے امریکی اسٹیبلمشنٹ کے طویل المعیاد مفادات حائل ہو رہے ہیں، جو امریکا خطے میں رہ کر ایران، روس اور چین کے خلاف حاصل کرنا چاہتا ہے۔