شمالی قبرص کے انتخابات میں ترک نواز رہنما کامیاب

Ersin Tatar

Ersin Tatar

قبرص (اصل میڈیا ڈیسک) شمالی قبرص کے صدارتی انتخابات میں ترکی کے ساتھ بہتر رشتوں کے حامی رہنما ایرسن تاتار کو کامیابی ملی ہے جبکہ جنوبی قبرص کے ساتھ اتحاد کے حامی صدر مصطفی اکنچی ہار گئے ہیں۔

شمالی قبرص میں انتخابی حکام نے اتوار 18 اکتوبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں وزیر اعظم ایرسن تاتار کو کامیاب قرار دیا ہے۔ تاتار کو دائیں بازو کا سخت گیر رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ وہ یونانی زبان بولنے والے جنوبی قبرص کے ساتھ اتحاد کے بجائے ترکی کے ساتھ مضبوط رشتوں کے حامی رہے ہیں۔

انتخابی کمیشن کے سربراہ کے مطابق تمام ووٹوں کی گنتی مکمل ہوگئی اور ایرسن تاتار کو 51 اعشاریہ 74 فیصد ووٹ ملنے کی وجہ سے انہیں کامیاب قرار دیا گیا جبکہ ان کے مد مقابل امید وار صدر مصطفی اکنچی 48 اعشاریہ 26 فیصد ہی ووٹ حاصل کرسکے۔

ایرسن تاتار کو انقرہ کی حمایت حاصل ہے اور وہ جنوبی قبرص کے ساتھ اتحاد کے بجائے جزیرہ پر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے حامی ہیں۔ ترکی جنوبی علاقے کی آزادی اور خود مختاری کا حامی ہے تاہم دیگر ممالک اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے۔ 60 سالہ تاتار کی کامیابی پر ترکی کے صدر طیب اردوان نے مبارک باد پیش کی۔

طیب اردوان نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں ترک قبرص کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے لکھا، ”ایرسن تاتار کے صدر منتخب ہونے پر میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ترکی شمالی قبرص کے ترکش قبرص کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی تمام تر کوششیں جاری رکھے گا۔

صدر مصطفی اکنچی نے اپنے حامیوں سے خطاب میں اپنی شکست تسلیم کر لی اور کہا کہ اس کے ساتھ ہی ان کے سیاسی کریئر کا خاتمہ ہوا

صدر مصطفی اکنچی جنوبی قبرص کی ‘جمہوریہ قبرص’ کے ساتھ پھر سے متحدہ ہونے کے حمایت کرتے رہیں جہاں بیشتر افراد یونانی زبان بولتے ہیں۔ یہ خطہ یورپی یونین کا رکن بھی ہے۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے خطاب میں اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم نے انتخابات میں ایسا مقابلہ کیا جو بہت نارمل نہیں تھا۔ ان نتائج کے ساتھ ہی میرے 45 برس کے سیاسی کریئر کا خاتمہ ہوا۔ میں اپنے لوگوں کی بھلائی کی نیک تمنا کرتا ہوں۔”

گزشتہ ہفتے کے پہلے مرحلے کے انتخابات میں کوئی بھی امیدوار واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکا تھا جس کے بعد دونوں کے درمیان براہ راست مقابلے میں تقریبا دو لاکھ افراد نے ووٹ ڈال کر فیصلہ کیا۔ صدر اکنچی دوبارہ صدر بننے کی امید کے ساتھ میدان میں اترے تھے جنہیں سوشل ڈیموکریٹک امیدوار طوفان ایرحرمان کی بھی حمایت حاصل تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں تاہم انہیں شکست ہاتھ لگی۔

سن 2015 میں اکنچی نے 60 فیصد ووٹوں کے ساتھ زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے انتخابات میں ترکی کی مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ایسی بھی دھمکیاں مل رہی کہ وہ انتخابات میں حصہ نہ لیں۔

ترکی نے انتخابات سے محض دو روز قبل اپنے زیر اثر شمالی قبرص کے ساحلی علاقے وروشا کو کھول دیا تھا جس پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ لیکن کامیاب امیدوار ایرسن تاتار نے اس کی حمایت کی تھی۔ قبرص شمالی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم ہے اور اس علاقے کے تعلق سے ترکی اور جنوبی قبرص کے درمیان برسوں سے تنازع رہا ہے۔ جنوبی علاقے کی حکومت کو عالمی برادری تسلیم کرتی ہے تاہم شمالی ترکش قبرص کی خودمختاری کو ترکی کے علاوہ کسی نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ دونوں کے درمیان اتحاد کے لیے عشروں سے بات چیت بھی جاری ہے تاہم اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔

جنوبی علاقے پر ترک قبرص فوجیوں کا کنٹرول ہے۔ صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے رہنماایرسن تاتار اب اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی امن بات چیت میں خطے کی نمائندگی کریں گے۔ مشرقی بحیرہ روم میں ترکی، یونان اور قبرص کے درمیان توانائی کے ذخائر اور ان کی دریافت کے حوالے سے کافی اختلافات پائے جاتے ہیں اور اب اس مسئلے پر ترکی کو تاتار کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔

گزشتہ ہفتے ترکی نے پھر سے اس علاقے میں توانائی کی دریافت کا کام شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے علاقے میں حالات پھر کشیدہ بتائے جارہے ہیں اور یورپی یونین نے ایک بار پھر اس معاملے پر ترکی پر نکتہ چینی کی ہے۔