نواز شریف نے آج بھرے مجمعے کوڈائریکٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لیکر فوج کے خلاف اکسایا ہے ،فوج اور عوام میں دراڑیں ڈالنے کے لیے چابی کہیں اور سے دی گئی ہے اقتدار کی اتنی ہوس ہے کہ کھل کر ملک دشمنی پر اتر آیا ہے عوام کا درد ہوتا تو اپنی حکومت ککے آخری روز دو سو ارب اپنے ارکان اسمبلی میں بانٹ کر نہ جاتے سارا ملک گروی اور خزانہ خالی کر کے یہ نہ کہتے اب دیکھتے ہیں عمران خان حکومت کیسے چلاتا ہے تین سال تو یہ ملک اٹھ ہی نہیں سکتا یہ الفاظ تھے شاہد خاقان عباسی کے یہی سٹیٹ منٹ کم و بیش مفتاح اسماعیل کی تھی تو عمران خان ہوا میں وعدے پورے کرتا چلین مان لیتے ہیں عمران خان کی حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو گئی لیکن اس کا الزام فوج پر کیوں ؟ فوج تو وہ ہے جس نے اپنا بجٹ کم کر کے سیویلین حکومت کی مدد کی تاکہ پاکستان سنبھل سکے لیکن اس کے خلاف اتنی بدتمیزی ،ایک بے غیرت شخص جس نے بیٹے لندن بٹھا رکھے ہیں اور بیٹی کو آگے کر دیا ہے وہ لیڈر کہلانے کا حقدار کیسے ہے جو اپنی بیٹی کے لیے بائیس کروڑ عوام کی زندگیاں دائو پر لگا دے یہ وہی لوگ ہیں جو مسلسل این آر او کی بھیک مانگتے رہے اور جب مکمل انکار ہو گیا تو ملک کے خلاف کھل کر سامنے آ گئے افواج پاکستان کو یہ سزا ملک کے لیے قربانیاں دینے کی مل رہی ہے آج چار دن میں ستائیس فوجی ملک کے لیے اپنی جان دے چکے ہیں کیونکہ بھارت بلوچستان میں کھل کے دہشت گردی کرا رہا ہے ایسے میں ملک کے اندر انتشار اور جلسے جلوسوں کے ذریعے امن و عامہ کا مسلہ فورسز کو بیک وقت کئی محاذون پر مصروف کیے ہوئے ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن فوج کی بیک پر کھڑی ہوتی لیکن یہاں تو تین بار کے وزیر اعظم 1971میں ہتھیار ڈالنے کا طعنہ اپنی ہی فوج کو دے رہے ہیں حالانکہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا تنازعہ سیاستدانوں کا پیدا کردہ تھا ادھر ہم اُدھر تم کا نعرہ فوج نے نہیں لگایا تھا۔ `
سور کے بچے پرے جا کے مریں فوج نے نہیں کہا تھا یہ الفاظ بھٹو کے تھے جو ریکارڈ کا حصہ ہیں انہی سیاست دانوں نے کرسی کی خاطر عوام میں لسانیت اور رنگ و نسل کے بیج بوئے اسی نفرت کے بل پر مشرقی پاکستان بھارت کے قریب ہوا مکتی باہنی تشکیل پائی مغربی پاکستان کو بھٹو کی ضد کی وجہ سے غاصب سمجھا جانے لگا تب فوج کو مشرقی پاکستان بھیج دیا گیا جہاں کے اسکولوں میں پاکستان کے مخالف تعلیم دی جا رہی تھی جب عوام میں نفرت پیدا ہو جائے تو دنیا کی کوئی فوج اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور ایسی صورت میں تو بالکل نہیں جب آپ کی فوج بے سرو سامان رہ جائے فوج کے پاس سامان رسد نہ پہنچ سکے دو لاکھ بھارتی فوج اور ڈیڈھ لاکھ مکتی باہنی اور مقابل تھی پاکستان کی بے سروسامان پاک فوج اس ہار کے پیچھے جو بھی عوامل تھے اس سے قطع نظر ایک اور اینگل سے دیکھتے ہیں۔
1940میں فرانس کی حکومت نے ہتھیار ڈالے کیا فرانس کے وزیر اعظم نے طعنہ ذنی کی ؟جاپان کے وزیراعظم نے جاپان کی فوج کو 1945میں ہتھیا ڈالنے پر مجرم ٹھیرایا ؟ کیا جرمنی کے وزیر اعظم نے 1918.1945 میں ہتھیار ڈالنے پر جرمن فوج پر طعنہ ذنی کی ؟ کیا امریکہ بہادر کا ٹرمپ اپنی فوج کی افغانستان میں شکست پر میڈیا میں آکر اپنی فوج کی مذمت کرے گا ؟ ارے نہیں بھئی یہ اعزاز تو صرف پاکستانی سیاستدانوں کو حاصل ہے کہ وہ دنی کی نمبر ون فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے دشمنوں کو خوش کر کے غداری کا ثبوت دیں گجرانوالہ کے نون لیگ کے رہنما جن کا نام غالبا میاں محمد اکرم ہے اس لیے نون لیگ سے علیحدہ ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کے مطابق وہ پکستان اور پاکستان کی فوج کے خلاف بکواس نہیں سن سکتے ،کوئی بھی محب الوطن انسان فوج کی مذمت نہیں کر سکتا کیونکہ ہر ملک جانتا ہے کہ ان کی افواج ہی ان کی سرحدوں پر ان کی بین الاقوامی عزت کی ضامن ہے نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا ڈکٹیٹروں نے سیاستدانوں کو غدار کہا ۔۔ ویسے میاں صاحب بے نظیر کو غدار اور سیکورٹی رسک قرار دینے والا کون تھا ؟جب نواز شریف کا تختہ مشرف نے الٹا تو اس اقدام کو خوش آئیند قرار دینے والی بے نظیر تھیں اور مٹھائیاں بانٹنے والی عوام تھی بے نظیر نے نواز شریف کو سویلئن آمر قرار دیا۔
نواز شریف نے کہا کہ فوج نے بلوچستان کے بزنجووں اور مریوں کو غدار کہا ،بلوچستان کی پہلی حکومت کا تختہ فوج نے نہیں بلکہ بھٹو نے الٹا اور CMعطا اللہ مینگل ،گورنر غوث بخش بزنجو اور خیر بخش مری کی گرفتاری کا حکم دیا ان سیاستدانوں نے اپنی لڑائیوں میں ہمیشہ ملک کا نقصان کیا ایک مشہور کہاوت ہے بندر آپس میں مل جائیں تو مل کر پورا باغ کھا جاتے ہیں اور اگر آپس میں لڑ پڑیں تو مل کر پورا باغ اجاڑ دیتے ہیں ان سیاستدانوں نے بھی خود ہی ایک دوسرے کو غدار قرار دیا ایک دوسرے کے خلاف مقدمے بنائے خود ہی ایک دوسرے کی کرپشن کا پیچھا کیا خود ہی ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کیس درج کروائے کیا کوئی یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ جتنے مقدمات ہیں ان سے متعلق کوئی جنرل یا فوجی افسر پٹیشن لے کر عدالت گیا ہو کوئی ایک مقدمہ بتا دیں نواز شریف نے ہمیشہ فوج کو تقسیم کرنے کی کوشش جاری رکھی ،جنرل مشرف کے بیرونی دورے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کیا ماچس کی تیلیوں سے رینک لگا رہے تھے جو گھبراہٹ میں لگ نہ سکے ) اس کے فورا بعد جنرل مشرف جو کہ پاکستان کے آرمی چیف تھے ان کے طیارے کا رخ بھارت کی طرف موڑنے کا حکم دیا (اس کی گواہی حامد میر نے اپنے کالم ”آئین کس نے توڑا ” جو روزنامہ اوصاف میں چھپا تھا جو میں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے خود پڑھا تھا جس میں اس نے جنرل مشرف سے نواز شریف کو پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کیا تھا )بحر حال یہ زمین پر طیارہ ہائی جیکنگ کی انوکھی واردات تھی جسے فوج نے ماننے سے انکار کیا کارگل میں فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا ابھی تازہ تھا کہ جو کہ نواز شریف کے تختہ الٹنے کی وجہ بنا اب ہر بار تو باندر کے ہاتھ میں استرا نہیں دیا جا سکتا۔
نواز شریف نے اپنی حکومت کا تختہ الٹنے پر مشرف کو غدار قرار دیا جبکہ آج جب جنرل قمر باجوہ کہتے ہیں ہم منتخب جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں تو اس پہ بھی نواز شریف فوج کو مورد الزام ٹھیرا رہے ہیں آخر فوج کیا کرے کہ ان شیطانوں کی تسکین ہو سکے میں اسی پاک فوج کے متعلق بین الاقوامی وقائع نگاروں کی آرا اور کچھ واقعات سناتی ہوں بین القوامی شہرت یافتہ امریکی ہفت روزہ ،ٹائمز کے نمائندے لوٹس کرار نے ستمبر 1965کے شمارے میں جنگ ستمبر کے محاذوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لکھا تھا میں پاک بھارت جنگ کو شائد بھول جائونگا لیکن پاک فوج کا جو افسر مجھے محاذ پر لے گیا تھا اس کی مسکراہٹ کبھی نہیں بھول سکونگا یہ مسکراہٹ مجھے بتا رہی تھی کہ پاکستانی نوجوان کس قدر نڈر اور دلیر ہیں جوان سے جرنیل تک میں نے اسی طرح آگ سے کھیلتا دیکھا ہے جس طرح بچے گولیوں سے کھیلتے ہیں لوٹس کرار نے اپنی رپورٹ اس فقرے کے ساتھ شروع کی تھی جو قوم موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا جانتی ہو اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا برطانیہ کا مشہور اخبار ڈیلی میل کا جنگی وقائع نگار ایلفرڈ کک بھی پاکستان میں ہی موجود تھا اس نے لاہور کا آخری اور انتہائی خون ریز معرکہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے۔
لاہور کے محاذ پر بھارتیوں نے بھینی (باٹا پور سے پانچ میل شمال کی جانب )بی آر بی پل کے مقام پر تمام رات گولہ باری جاری رکھی پونے تین بجے یعنی صبح فائر بندی کے وقت انہوں نے بھینی پل پار کرنے کے لیے انفینٹری سے دو شدید حملے کیے ان حملوں کی پشت پناہی کے لیے بھاری توپ خانے کی جو گولہ باری کی وہ اس سیکٹر کی شدید ترین گولہ باری تھی معائدے کے مطابق جنگ بندی کے طے شدہ وقت کے پندرہ منٹ بعد تک گھمسان کی جنگ جاری رہی اور پاکستانیوں نے بھارتیوں کے یہ دونوں حملے پہلے حملوں کی طرح پسپا کر دیئے پھر کہیں جا کر فائر بندی ہوئی جنگ بندی کے بعد دور کہیں بھارتی سر زمین سے دھویں کے کالے سیا ہ بادل اٹھنے لگے میں نے پاک فوج کے افسر کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا وہ ہلکی سی ہنسی ہنس کر بولا ” ہندوستانی اپنی لاشوں کو جلا رہے ہیں ” تھوڑی دیر بعد انڈین آرمی کے بہت سے ٹرک میدان میں اہستہ اہستہ چلتے نظر آنے لگے وہ لاشیں اٹھانے آئے تھے جبکہ پاک فوج کے پیادہ اسٹریچر اپنے جوانوں کی لاشیں ڈھونڈ رہے تھے اس وسیع و عریض میدان میں شہدا کی کل تعداد چھپن تھی یہ گذشتہ رات کے شہدا تھے ان کے مقابلے میں بھارتی صرف ڈوگرئی کے علاقے سے لاشوں کے چودہ ٹرک بھر کر لے گئے وہ صرف تازہ لاشیں لے گئے۔
گلی سڑی لاشوں کو وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے وہ لاشوں کو ٹانگوں اور بازووں سے اٹھا کر لکڑی کے گٹھوں کی طرح ٹرکوں میں پھینک رہے تھے بلکہ لاشوں کو ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹ کر لے جاتے اور اندر پھینک دیتے ایک ایک ٹرک میں وہ نوے ،سولاشوں کو بھر کر لے گئے یہ لاشیں پسماند گان تک نہیں پہنچائی گئیں بلکہ واہگہ بارڈر کے قریب ہی ڈھیر لگا کر ان پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دیجاتی یہ سلوک ان سپاہیوں کے ساتھ ہو رہا تھا جو اپنے عیار حکمرانوں کی پاکستان دشمنی پر قربان ہو گئے تھے اس کے بر عکس پاک فوج اپنے جوانوں کی لاشیں اتنے احترام اور آہستگی سے اٹھاتی جیسے ان کو ھلکے سے جھٹکے سے بھی تکلیف ہوگی جب شہید کی میت آتی تو افسر اس کے ہاتھ چومتے چہروں سے مٹی صاف کرتے باری باری سیلیوٹ کرتے اس محاذ پر پاک فوج کے پانچ ہزار جوانوںنے دشمن کا چالیس ہزار کا لشکر روک رکھا تھا جو جنگوں کی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا ایک جوان سے میں نے پوچھا یہ کیسے کیا ؟ اس نے خون اور مٹی سے ملا ہوا پسینہ پونچھتے ہوئے کہا پہلے روز جب ٹینک گرجے اور توپوں کے دھماکے ہوئے تو خیال آیا ہندو اٹھارہ برسوں کی تیاری کے بعد پاکستان مٹانے آ گیا ہے اس وقت تھرڈ بلوچ رجمنٹ کے ایک جوان نے مورچے سے گلا پھاڑ کر نعرہ لگایا کہ ”پاکستانیو آج بے غیرت نہ ہو جانا ” کسی اور مورچے سے نعرہ اٹھا کہ ”مسلمانو آج پیٹھ نہ دکھانا ” بس ان نعروں کے بعد ہم نے مارنے یا مر جانے کی ٹھان لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آج ہم نے آٹے چینی کے لیے مرنے مارنے کی ٹھان لی ہے ،غیرت ہم سے منہ چھپائے پھر رہی ہے غدار وطن ہمیں تھپکیاں دے دے کر اکسا رہے ہیں بریانی کی ایک پلیٹ ہے اور ہم ہیں دوستو عمران خان نے صحیح فیصلہ کیا ہے جب تک سخت ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا یہ بے غیرتی بڑھتی جائے گی۔