کسی نے خوب کہا ہے کہ جب تک بیوقوف زندہ ہیں عقلمند بھوکا نہیں مر سکتا۔ معاملہ کی سنجیدگی، پیچیدگیاں پیدا کر دیتی ہے اور پیچیدگیوں کو سلجھانا کسی فن سے کم نہیں۔ پیشہ ور لوگ اس بات کوبہت اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں بھی بڑھتی ہوئی ترقی کی طرح پیچیدگیوں میں بھی دن با دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آسان اور واضح لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھوک اور افلاس سے پیدا ہونے والی مایوسیوں کا دور دورہ ہے اورتقریباً اکثریت اس بیماری میں مبتلاء ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔ تبدیلی کسی کی محتاج نہیں ہے یہ ہر گزرتے لمحے کیساتھ خود بخودرونما ہوتی چلی جاتی ہے، جیسے پانی کی روانی اپنے راستے خود تلاش کرلیتی ہے یا بنا لیتی ہے بلکل زندگی کی تبدیلیاں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں (لیکن کچھ لوگ قدرت کی جانب سے کی جانے والی تبدیلی کو بھی اپنے گلے میں لٹکائے پھرتے دیکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ وہی ہے کہ جب تک بیوقوف زندہ ہے عقلمند بھوکا نہیں مرسکتا)۔طبعی تبدیلی انسان کے کس بل کھولوا دیتی ہے ایک انتہائی صبر آزما مسلسل کرتے رہنے سے کہیں جاکے تبدیلی کے آثار دیکھائی دیتے ہیں جسے ہر آنکھ دیکھنے سے بھی قاصر ہے۔ تبدیلی کے نعرے لگانے والے جیسے تھک کر کہیں خاموش بیٹھے ہیں، جیسے انکی مطلوبہ تبدیلی کیلئے کی جانے والی جدوجہد رائیگاں ہوتی جارہی ہے۔ یوں تو بہت سے نام ایسے موضوعات کی وجہ سے بڑے ہوئے کہ جن پر عام لکھنے یا بولنے والوں کی انگلیاں اور زبان جلا کرتیں ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر انیل سلمان صاحب کا انگریزی زبان میں ایک مضمون شائع ہوا جس کااردو میں عنوان تھا، ٭ حوصلہ افزائی کی ترغیب دینے والے، نئے دور کہ بنارسی ٹھگ ٭ یقینا یہ ایک چبھتا ہوا موضوع کہا جاسکتا ہے اور چبھن کو محسوس کرنے کیلئے ڈاکٹر صاحب کے مضمون کاانگریزی مطالعہ اس جوڑ یا کڑی (https://www.globalvillagespace.com/motivational-speakers-the-new-form-of-banarasi-thugs/) پر کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر انیل سلمان صاحب ایک قدآور شخصیت ہیں، اپنے پیشے کے ماہر ہیں اورمعاشرے میں رونماء ہونے والے امور پر گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے مشاہدات و تجربات کو انگریزی زبان میں عام کرتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر صاحب سے ایک انتہائی مودبانہ گزارش کرتے چلیں کہ برائے مہربانی اردو رسائل و اخبارات کیلئے اپنے مضامین کا ترجمہ بھی فراہم کیا کریں، ایک تو اس سے اردو کے نفاذ میں مدد ملے گی دوسرے یہ کہ معلومات عام آدمی تک حقیقی معنوں میں پہنچ جائے گی، قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک مخصوص طبقہ جانکاری عام آدمی تک پہنچانا ہی نہیں چاہتا (یقینا ڈاکٹر انیل سلمان صاحب کا شمار ان میں نہیں ہوتا ہوگا)، سب کام کی اور اہم باتیں انگریزی میں ہوتی ہیں جو عام آدمی کی سمجھ سے تا حال باہر ہے بلکہ اور باہر ہوتی جا رہی ہے۔یہاں میر تقی میر صاحب کا بھی تذکرہ کرتے چلتے ہیں کہ جن کے بارے میں مشہور ہے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے اشعار عام لوگوں کی سمجھ میں آئیں۔
عنوان سے واضح ہے کہ ڈاکٹرانیل سلمان صاحب نے ایک پیشے پر تنقیدی قلم درازی کی ہے اور جوکہ ایک ایسے پیشے کی صورت اختیار کر چکا ہے جیسے کہ کوئی ڈھب(فیشن) ہو۔ جیسا کہ درجہ بالا سطور میں رقم کیا گیا ہے کہ جب تک بیوقوف زندہ ہیں عقلمند بھوکا نہیں مرسکتا، حالات کے پیش نظر ایک طبقہ ایسا ہے جو کہ بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے اور اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ اس ذہنی دباؤ کا سب سے بڑانقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگ جہاں مختلف عارضوں میں مبتلاء ہوجاتے ہیں وہیں معاشرے کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو بہت بہترین دنیاوی طرز زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ ماضی میں نفسیاتی ڈاکٹر بطور معالج باقاعدہ ایسے مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے یا پھر اس بیماری سے نجات کیلئے عامل بابا کے پاس مجمع لگا رہتا تھا۔ مایوسی کے بہت سارے نام بطور مرض سائنس نے اخذ کر رکھے ہیں۔ ہم سائنسی تحقیق پر بات نہیں کرینگے کیونکہ یہ ایک باقاعدہ موضوع ہے۔ یہاں اس بات پر بھی روشنی ڈالتے چلیں کہ مایوسی جہاں ذہنی امراض کو جنم دیتی ہے وہیں جسمانی امراض بھی بیدار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ جب انسان کو کو ئی راستہ نہیں دیکھائی دے اور وہ اپنی ہی ذات میں قید ہو کر رہ جائے، اسکی سمجھ اسے یہ کہے کہ اب تم سے کچھ نہیں ہوسکتا اسلئے تمھیں خودکشی کرلینی چاہئے پس یہ ثابت ہوا کہ خودکشی کی سب سے بڑی وجہ مایوسی ہی ہے۔جب آپ کو اپنے خالق پر بھروسہ نہیں رہا تو ویسے ہی کفر ہوگیا اسی لئے تو اسلام نے مایوسی کو کفر قرار دیا ہے اور یہ بات واضح کی ہے کہ اپنے خالق پرکامل ایمان تمہیں کبھی رسواء نہیں ہونے دیگا مایوسی تو بہت دور کی بات ہے۔
انسان بشری تقاضے پورے کرنے میں اندھا دھن مگن ہے اور اس مگن میں اپنی حقیقت کو فراموش کرچکا ہے، جہاں کہیں ٹھوکر کھاتا ہے گرتا ہے، سب جو موجود ہوتا ہے ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے پھر صرف اور صرف مایوسی گھیر لیتی بلکہ جکڑ لیتی ہے اور گھسیٹ کر خودکشی کے اندھے کنویں میں دھکیل دیتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت اپنی مخصوص ذہنی کیفیت میں رہنا پسند کرتے ہیں اور اگر یہ لوگ معاشی طور پر مستحکم ہوں تو یہ اس کیفیت میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں رکھتے۔ ہاں البتہ جو لوگ مستحکم معیشت کیلئے مسلسل تگ و دو میں لگے رہتے ہیں وہ حالات و واقعات کے حساب سے اپنی ذہنی کیفیت میں تبدیلی لانے کیلئے تیار رہتے ہیں اور یہ محاورہ ایسے ہی لوگوں کیلئے کہا گیا ہے کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔یوں تو ہم خود بھی اس موضوع پر قلم بطور تلوار اٹھانا چاہتے رہے لیکن ناگزیر وجوہات کی بنا پر ممکن نہیں ہوسکا، شکریہ انیل سلمان صاحب کا کہ انکی وجہ سے حوصلہ ملا اور یہی وہ حوصلہ ہے جو جسے بیچنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ زندگی کسی نا کسی مقصد کے حصول کیلئے ملی ہے، جسکے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ مقصد کیا ہے؟ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت بغیر کسی مقصد کے اپنی اپنی زندگیاں رائیگاں کرکے جا چکے ہیں۔ یہ مقصد انسان کو اپنے آپ کو انسان منوانے کا ہے، کچھ بھی منوانے سے قبل یہ ضروری ہوتا ہے کہ پہلے ماننے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کی جائے۔ انسانوں کی اس بھیڑ میں کچھ لوگوں نے انسانوں کو متحرک کرنے کی باقاعدہ کوشش شروع کی، پہلے پہل والوں نے اپنے تجربات کو کتابوں کی شکل میں چھوڑا، دوسرے عملی کارناموں سے انہوں نے تحریک پیدا کرنے کی کوشش کی اور تیسری اور آخری شکل ہمارے درمیان موجود ہے جو ناصرف پچھلے دونوں زندہ کئے ہوئے بلکہ میڈیا کے ہر پلیٹ فارم کو بھرپور استعمال کر رہے ہیں، دیکھا جائے تو سماجی ابلاغ پر ایسے ترغیب دینے والے اور تحریک پیدا کرنے والوں کی بہتات ہے اور شائد سماجی ابلاغ سے متعلق جتنی بھی ویب سائٹ انٹر نیٹ پر موجود ہیں سب انکے ہی دم سے چل رہی ہیں۔
یوں تو انسانوں کو صحیح معنوں میں تحریک انکے روحانی پیشواؤں سے ملتی رہی ہے یعنی مذہبی کا عنصر تحریک اور ترغیب دینے میں سب سے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ قارئین ترغیب، تحریک کو حوصلہ افزائی بھی سمجھ سکتے ہیں۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں بڑے ہی روائتی انداز میں یعنی پہناوا وغیرہ کے ساتھ زندگی کو بہترین طریقے سے گزارنے کیلئے بھرپور حوصلہ افزائی کرتے دیکھائی دیتے ہیں لیکن افسوس یہ طریقہ اپنا تاثر بہت کم لوگوں پر قائم رہتا ہے اور قائل کرپاتا ہے۔ حوصلہ افزائی سے وابسطگی کا تقاضہ ہے کہ آپکو مختلف زبانوں پر عبور حاصل ہو یا کم از کم سمجھ ضرور آتی ہو، آپکے پاس پیشہ ورانہ اسناد بھی ہوں اور آپ بیرون ملک سفر کرتے رہے ہوں۔ آج ہمارے سامنے جو لوگ حوصلہ افزائی کرنے کیلئے موجود ہیں انمیں یہ ساری خصوصیات بلعموم موجود ہیں اور ایک اہم بات کہ مقرر مشرق اور مغرب کے اشتراک پر پورا یقین رکھتا ہو۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا جہان میں حوصلہ افزائی پر بات کرنے والے پیشہ ور افراد خوب مہارت سے رقم بنا رہے ہیں جس کی بنیاد پر انیل سلمان صاحب نے انہیں بنارسی ٹھگ کہہ کر پکارا ہے۔ یہاں یہ بات بھی زیر غور ہے کہ کیا کسی فرد کو کوئی بھی ترغیب دے سکتا ہے؟ جہاں تک تعلق ہے پیشہ ور افراد کا جو کسی ادارے سے وابستہ ہوتے ہیں تو ان پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ حوصلہ افزائی کرنے والوں کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی کام کرنے کی جگہ کواور اپنے آپ کو زیادہ کار آمد بنائیں۔ یہاں جو اختلاف پایا گیا وہ کچھ اسطرح ہے کہ ایک حوصلہ افزائی پر گفتگو کرنے والا شخص ایک تو ہر جگہ ایک ہی قسم کی گفتگو کرتا سنائی و دیکھائی دیتا ہے اور یقینا اپنے مخصوص انداز میں، اختلا ف یہاں مکمل نہیں ہوتا بلکہ جتنے بھی اس موضوع سے وابسطہ اشخاص ہوتے ہیں تقریباً ایک ہی طرز پر گامزن ہوتے ہیں۔ جو کام ادارے میں موجود رہنماء طبعیت کے لوگ زیادہ واضح اور آسان طریقے سے کرسکتے ہیں ان کی جگہ خطیر رقم خرچ کرکے (جسکی بدولت انہیں بنارسی ٹھگ کہا گیا ہے) انہیں بلایا جاتا ہے۔ انکی باتوں کا عملی کام سے کہیں دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا اور افسوس اس بات کا ہے کہ سننے والے سن ہوکر محظوظ ہونے کا جھوٹا ڈھونگ رچاتے رہتے ہیں۔
گوکہ حوصلہ افزائی کوئی آسان کام نہیں ہے، سامنے والے کے رد عمل کا کوئی پتہ نہیں ہوتا وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میرے جوتے میں پیر ڈال کر حوصلہ افزائی کر کے دیکھاؤ۔ آج ہمارے درمیان کتنے ایسے کامیاب لوگ موجود ہیں کہ جن کی کامیابی کے پیچھے اس طرح حوصلہ افزائی کی ترغیب دینے والے لوگ موجود تھے، لیکن ان لوگوں کے ادوار اسطرح کی مایوسیوں میں لتھڑے ہوئے نہیں ہونگے۔دھوکا دہی، جھوٹ اور بے ایمانی کی ایسی فراوانی نہیں ہوگی جتنی کے آج ہے کیونکہ دورِ جدید میں یہ تمام عوامل کسی بھی شخصیت کی اضافی خصوصیات و قابلیت سمجھی جاتیں ہیں۔ آج ہر کامیاب فرداپنی کامیابی کا ڈنکا بجانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے وہ خود ہی حوصلہ افزائی کی ترغیب دینے کھڑا ہوجاتا ہے۔ سماجی ابلاغ کا بھی اس میں بہت بڑا حصہ ہے کیونکہ ہر فرد ہی دوسروں کو اچھا کرنے کی ترغیب دیتا دیکھائی دیتا ہے اسکے برعکس اسکے برتاؤ میں اس اچھائی کا کچھ لینا دینا نہیں دیکھائی دیتا، جسکی مثالیں عام مل جاتی ہیں۔اس بات پر اپنی بحث کو سمیٹتے ہیں کہ ایسے لوگ صحیح معنوں میں حوصلہ افزائی کی ترغیب دینے والے ہیں جو دنیا کے ساتھ ساتھ مذہبی سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہوں وہ آپ کو صرف اور صرف دنیا کی رنگینی میں رنگنے کی ترغیب نہیں دیتے ہوں بلکہ مذہب سے بھی جڑے رہنے پر آمادہ کرتے ہوں، جنکی بدولت جہاں اسلام کے صحیح تشخص کی ترجمانی ہوسکے اور سفر آخرت کا بھی کچھ سامان ہوسکے۔ جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی کے بغیر حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی، کیا عام انسان کو ویسا دکھنے کیلئے جیسا وہ دکھنا چاہتا ہے کسی سے سند لینی ہوگی۔ حوصلہ افزائی کی ہر سطح پر ضرورت ہوتی ہے اور ہر فرد واحد کو ضرورت ہوتی ہے لیکن ایسی حوصلہ افزائی جو بطور فیشن (ایک ڈھب) معاشرے میں پروان چڑھ چکی ہے عام آدمی کی حوصلہ شکنی کا سبب تو نہیں بن رہی۔ انسانیت کی بقاء ایک دوسرے سے جڑے میں ہے اور جڑے رہنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کو تھپکی دیں یا ایک محبت والی جھپی دیں تاکہ معاشرے کا بگڑتا ہوا توازن برقرار رہ سکے اور لوگ خود کشی کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ ایسی زندگی اور ایسے لوگ دوبارہ نہیں مل سکتے۔