لیبیا (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کی ثالثی میں جنیوا میں جاری مذاکرات کے نتیجے میں لیبیا میں متحارب فریقین کے درمیان فائربندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے پر فریقین نے جمعے کو دستخط کیے۔
فیس بک پر اقوام متحدہ کے لیبیا کے لیے خصوصی مشن نےجمعے کو اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں اس معاہدے کا اعلان کیا۔ ایک لائیو ویڈیو تقریب کو سوشل میڈیا پر لائیو دکھایا گیا، جس میں فریقین نے معاہدے پر دستخط کیے۔ بتایا گیا ہے کہ ‘لیبیا کے تمام علاقوں میں مکمل فائربندی‘ کے نام سے اس معاہدے کے لیے گزشتہ کافی روز سے مذاکرات ہو رہے تھے۔
یہ بات اہم ہے کہ لیبیائی شہر طرابلس میں اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ حکومت قائم ہے، تاہم ملک کے مشرقی شہر بن غازی میں خلیفہ حفتر نے ایک متوازی حکومت بھی قائم کر رکھی تھی۔ اقوام متحدہ نے اس فائربندی معاہدے کو ‘تاریخی پیش رفت‘ قرار دیا ہے۔ ان مذاکرات میں ثالثی اقوام متحدہ کی مندوب برائے لیبیا اسٹیفنی ویلیمز کر رہی تھیں۔ جب کہ لیبیا میں فریقین کی فوجوں کے فائیو پلس فائیو جوائنٹ ملٹری کمیشن نے اس معاہدے پر اتفاق کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق لیبیا میں امن اور استحکام کے لیے یہ ایک اہم موڑ ہے۔ اس معاہدے کی تفصیلات فی الحال سامنے نہیں آئی ہیں۔ تاہم کہا جا رہا ہےکہ فریقین کے درمیان اختلافات پر مزید گفتگو کے لیے یہ معاہدہ پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
واضح رہے کہ سن 2011 میں شدید عوامی مظاہروں اور پھر نیٹو کی مدد کے ذریعے طویل عرصے تک مطلق العنان حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد یہاں مختلف ملیشیا گروہوں کے درمیان جاری لڑائی کی وجہ سے یہ ملک مسلسل انتشار کا شکار ہے۔ لیبیا میں قائم دو متوازی حکومتیں بھی مختلف عسکری ملیشیا گروہوں کی سرپرستی اور معاونت کرتی ہیں۔
عالمی مندوب اسٹیفنی ویلیمز نے اسی تناظر میں کہا، آئندہ چند دنوں میں ہمارے سامنے کرنے کو بہت سا کام ہے، تاکہ اس معاہدے میں طے کردہ نکات پر عمل درآمد ہوسکے۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ تیز رفتاری اور اشتراک عمل کے ساتھ پیش رفت ہو۔‘‘