کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے ایک نجی ٹیلی وژن سے وابستہ رپورٹر علی عمران لاپتہ ہونے کے قریب 22 گھنٹوں بعد واپس لوٹ آئے ہیں۔ان کے اچانک لاپتہ ہونے کا معاملہ سوشل میڈیا پر شدت سے اٹھایا جا رہا تھا۔
علی عمران کراچی میں جمعہ 23 اکتوبر کو لاپتہ ہو گئے تھے۔ تاہم وہ آج ہفتے کی شام کراچی شہر میں ہی واقع اپنی والدہ کے گھر واپس لوٹ آئے ہیں، جہاں سے انہوں نے بذریعہ ٹیلی فون اپنی اہلیہ سے رابطہ کر کے اپنی واپسی کی اطلاع دی۔ اس بات کی تصدیق ان کے خاندان کی جانب سے بھی کر دی گئی ہے۔
علی عمران سید جمعے کے روز شام سات بجے کے قریب اپنے گھر سے روانہ ہوئے تھے جس کے بعد وہ لاپتہ ہو گئے۔ ان کی گمشدگی کے چند گھنٹوں بعد ریکارڈ کیا گیا ان کی اہلیہ کا ایک ویڈیو پیغام بھی سوشل میڈیا پر کافی زیادہ شیئر کیا گیا۔ ان کے بقول علی عمران گھر سے آدھے گھنٹے میں واپس آنے کا کہہ کر نکلے تھے جس کے بعد سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ علی عمران کی گاڑی اور موبائل بھی گھر پر ہی موجود تھے۔
ان کے لاپتہ ہونے پر نہ صرف ان کے خاندان بلکہ جیو نیوز کی انتظامیہ کی طرف سے بھی پولیس میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرا دی گئی تھی۔ مقامی میڈیا کے مطابق علی عمران نے اپنی اہلیہ کو بتایا ہے کہ انہیں جسمانی طور پر کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
جیو ٹیلی وژن کراچی کے بیور چیف فہیم صدیقی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ علی عمران 22 گھنٹوں تک لاپتہ رہنے کے بعد واپس اپنی والدہ کے گھر پہنچ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی علی عمران سے ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے تاہم ذہنی طور پر ان کی کیفیت ایسی نہیں ہے کہ ان سے گمشدگی کے بارے میں بات ہو سکے اسی لیے یہی بہتر سمجھا گیا ہے کہ فی الحال انہیں وقت دیا جائے۔
علی عمران سید کی گشمدگی کی وجوہات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فہیم صدیقی کا کہنا تھا کہ علی عمران سید کامن رپورٹر ہیں اور وہ مختلف معاملات پر رپورٹنگ کرتے ہیں تاہم جو آخری اہم اسٹوری انہوں نے جیو ٹیلی وژن کے لیے کی وہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری سے متعلق ویڈیو تھی جو انہوں نے اپنے ذرائع سے حاصل کی اور جسے جیو ٹیلی وژن پر نشر کیا گیا۔
جیو ٹیلی وژن کراچی کے بیورو چیف فہیم صدیقی کے بقول ان کا ادارہ اور کارکن تفتیش کے سلسلے میں متعلقہ اداروں کے ساتھ تعاون کریں گے۔
علی عمران کی گمشدگی کے بعد ‘برنگ بیک علی عمران‘ اور ‘علی عمران سید‘ پاکستان میں آج ہفتے کے روز ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہے۔ ملک کے نامور صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ پاکستان نے بھی ان کے حق میں آواز اٹھائی اور حکام سے مطالبہ کیا گیا کہ علی عمران کی بخیریت واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے بھی قبل ازیں علی عمران کی گمشدگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا، ”کیپٹن صفدر کی جس انداز میں گرفتاری کی ہے اس سے آپ نے بہت زیادہ بدنامی کما لی ہے۔ اس طرح لوگوں کو اغوا کرکے حق اور سچ کی آواز دبا کر آپ مزید بدنامی نہ کمائیں‘‘
انہوں نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر تصویر بھی علی عمران کی ہی لگا دی۔ انہوں نے تاہم اس صحافی کی واپسی پر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ 22 گھنٹوں بعد گھر تو لوٹ آئے ہیں مگر پاکستان کے لوگوں کو لازمی طور پر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انہیں کس نے اغواء کیا اور کیوں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ یہ خیال ہی تکلیف دہ ہے کہ ان کے خاندان اور خاص طور پر ان کے چھوٹے بچوں کو کس درد سے گزرنا پڑ۔ اس سلسلے کو اب ختم ہو جانا چاہیے یا پھر کوئی بھی اس کا اگلا نشانہ بن سکتا ہے۔