Bildkombo Benjamin Netanyahu, Abdel Fattah al-Burhan, Donald Trump
سوڈان (اصل میڈیا ڈیسک) سوڈان اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پانچوں عرب ملک بن گیا ہے۔ بیشتر ممالک نے اس پیش رفت کو سراہا ہے مگر فلسطینی قیادت نے اپنی زمین پر قبضہ کرنے والے ملک کے ساتھ تعلقات کے قیام پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔
سوڈان اور اسرائیل نے تعلقات قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں سوڈان اسرائیل کو تسلیم اور اس کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پانچواں عرب ملک بن گیا ہے۔ عالمی سطح پر اکثریتی ممالک نے اس پیش رفت اور دونوں ممالک کے مابین کئی دہائیوں سے چلی آ رہی کشیدگی کے خاتمے کا خیر مقدم کیا تاہم فلسطینیوں سمیت چند ریاستوں نے اس پر ناراضگی ظاہر کی۔
حالیہ مہینوں میں پہلے متحدہ عرب امارات اور پھر بحرین نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کیا۔ امریکا کی ثالثی میں جمعہ چوبیس اکتوبر کو سوڈان نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کا اعلان کر دیا۔ یہ فیصلہ اس لیے بھی زیادہ اہمیت اختیار ک رجاتا ہے کیوں کہ سوڈان سن 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت سے ایک طرح سے اس کے ساتھ حالت جنگ میں تھا۔
باہمی تعلقات کے قیام کے اعلان کے باوجود سوڈان کی فوجی اور سویلین قیادت اب بھی اس بات پر منقسم ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کتنی تیزی سے اور کتنے زیادہ باہمی تعلقات استوار کیے جائیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذاکراتی عمل کے دوران خرطوم حکومت کا اس بات پر اصرار تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معاملے کو اس ملک کے ‘دہشت گردی کی معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست سے اخراج سے قطعی نہ جوڑا جائے۔
سوڈان کو سن 1993 میں ‘دہشت گردی کی معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس فہرست سے اخراج کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شرط رکھی تھی کہ خرطوم حکومت ہرجانے کے طور پر 335 ملین ڈالر جمع کرائے۔
سن 1998 میں تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانوں پر القاعدہ کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لیے ایک خصوصی بینک اکاونٹ قائم کیا گیا، جس میں سوڈان نے مطلوبہ رقوم جمع کرائیں۔
عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے جمعے کو اعلان کیا گیا ہے کہ واشنگٹن حکومت کی جانب سے سوڈان کو ‘دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست سے خارج کرنے سے اس ملک کے لیے قرض کے حصول کی راہ اب ہموار ہو گئی ہے۔
فلسطینیوں نے اس پیش رفت کی مذمت کی ہے۔ صدر محمود عباس کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، ”فلسطینی ریاست اس ڈیل کی مذمت کرتی ہے اور اسے مسترد کرتی ہے، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے بارے میں ہے۔ وہ ریاست جو فلسطینی زمین پر قبضہ جاری رکھی ہوئے ہے۔
غزہ پٹی پر کنٹرول کی حامل تنظیم حماس نے بھی اس ڈیل کو کسی ‘گناہ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا فائدہ صرف اسرائیلی وزیراعظم کو ہی ہو گا۔
ایران نے بھی اس ڈیل پر سخت رد عمل ظاہر کیا اور کہا کہ ‘سوڈان نے تاوان ادا کر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے، جس کے بدلے سے دہشت گردی کی معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست سے خارج کیا گیا۔
متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے سوڈانی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس بارے میں ہفتے کو اماراتی وزارت خارجہ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا۔ اس بیان کے مطابق سوڈان کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے خطے میں سلامتی کی صورتحال بہتر ہو گی جب کہ اقتصادیات، تجارت، سائنس اور سفارتی سطح پر بھی ترقی ہو گی۔
امریکی صدر نے ٹویٹ میں لکھا، ”یہ امریکا اور دنیا میں قیام امن کے لیے ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید لکھا کہ ‘چند ہفتوں میں تین عرب ریاستوں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ دیگر چند ریاستیں بھی جلد ہی ایسا کرنے والی ہیں۔
جرمنی نے بھی اس ڈیل کا خیر مقدم کیا اور اس کے حصول میں امریکی کردار کو سراہا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک مصر نے بھی ڈیل کو سراہا۔