درد اس ناخوشگوار احساس کا نام ہے، جس سے ہم سب واقف ہیں۔ مگر یہ احساس پیدا کیوں ہوتا ہے؟ اور کیا درد کا کوئی فائدہ بھی ہے؟
درد اس اشارے کا نام ہے، جو اعصابی نظام جسم کے کسی بھی حصے میں کسی بھی خرابی کو دیکھ کر دیتا ہے۔ یہ وہ ناخوشگوار احساس ہے، جو ٹھیس، تکلیف یا جلن یا خارش کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ درد عارضی یا مستقل ہو سکتا ہے، یہ جسم کے کسی خاص حصے یا تمام جسم میں ہو سکتا ہے۔ یہ تیز یا کم شدت کا ہو سکتا ہے، مگر بنیادی ،معاملہ ایک ہی ہے اور وہ ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔
درد کا سب سے بنیادی فائدہ یہ ہے کہ یہ جسم کو لاحق کسی بھی مسئلے کا پتا چلانے میں کلیدی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو درد کا احساس نہ ہو، تو ممکن ہے آپ کو خبر بھی نہ ہو اور آپ اپنے آپ کو شدید زخمی کر بیٹھیں یا آپ کو بالکل علم نہ ہو کہ کسی طبی مسئلے پر آپ کو علاج کی ضرورت ہے۔
درد کی دو بنیادی قسمیں ہیں۔ تیز اور دائمی۔
درد کی دوسری قسم دائمی درد ہے، جس کا دورانیہ طویل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے مزید کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
ایسا تو نہیں کہ ہر قسم کا درد قابل علاج ہو مگر بہت سی صورتوں میں اس کا علاج ممکن ہوتا ہے۔ اہم ترین یہی ہے کہ اس درد کی وجوہ کا سراغ لگایا جائے۔ تاہم درد کشا ادویات کی مدد سے وجوہ کے علاج کے علاوہ درد سے راحت کی راہ بھی اختیار کی جا سکتی ہے۔
آپ کو درد اس وقت محسوس ہوتا ہے جب نوسی سیپٹر نامی اعصاب کسی جگہ پر کسی بافت میں نقصان کا سراغ لگاتے ہیں۔ اس نقصان سے متعلق معلومات وہ ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے دماغ کو دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر آپ کسی گرم سطح کو ہاتھ سے چھوئیں، تو اعصاب ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے دماغ کو اطلاع دیں گے، اس کے جواب میں دماغ سے فوری طور پر پٹھوں کو حکم جاری ہو گا کہ وہ سکڑیں، یعنی ہاتھ اس گرم سطح سے دور ہو جائے گا، اس طرح جسم کو کم سے کم نقصان ہوتا ہے۔
یہ ردعمل اتنا تیز رفتار ہوتا ہے کہ درد کا احساس دماغ تک پہنچنے سے پہلے پہلے ہی دماغ ہاتھ کو گرم سطح سے ہٹا چکا ہوتا ہے، تاہم یہ درد کا پیغام یا یہ ناخوشگوار احساس بعد میں محسوس ہوتا رہتا ہے۔
اعصاب سے ایسے پیغامات کا اجرا، ریڑھ کی ہڈی کو ان پیغامات کی ترسیل اور دماغ تک ان پیغامات کا پہنچنا، مستعدی کے اعتبار سے مختلف افراد میں درد کے مختلف احساسات کا موجب ہوتے ہیں۔
تیز درد عموماﹰ فوری طور پر پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ کوئی بیماری، کوئی زخم یا کوئی سوزش ہو سکتی ہے۔ ایسا درد عموماﹰ تشخیص کر لیا جاتا ہے اور اس کا علاج ہو جاتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ تیز درد عمومی حالات میں بہت طویل دوانیے پر محیط نہیں ہوتا۔ مگر یہ ممکن ہے کہ یہ دائمی درد میں تبدیل ہو جائے۔
درد حقیقت میں کہیں وجود نہیں رکھتا بلکہ اعصاب کے ذریعے دماغ تک پہنچنے والی معلومات کی چھان بین کا نام ہے۔ دماغ اس معلومات کی بنا پر یہ طے کرتا ہے کہ درد کتنا ہونا ہے یعنی اگر آپ کی ٹانگ ٹوٹتی ہے یا بازو پر چوٹ لگتی ہے، تو درد اصل میں آپ کی ٹانگ ٹوٹنےکے مقام یا بازو پر لگنے والی چوٹ پر طبعی طور پر نہیں ہوتا، بلکہ اس پیغام کا ہوتا ہے، جس پر دماغ غور کرتا ہے۔ اعصاب کسی جگہ پر جسم کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق معلومات دماغ کو ارسال کرتے ہیں اور دماغ اس معلومات کی بنیاد پر درد کا فیصلہ کرتا ہے۔ اعصاب بھی نقصان کا مسلسل جائزہ لیتے ہوئے مزید معلومات ارسال کرتے رہتے ہیں اور اس بنا پر دماغ بھی درد کی شدت بڑھانے یا کم کرنے کا فیصلہ کرتا چلا جاتا ہے۔
درد کے کم کرنے کے لیے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دماغ کو اس درد سے زیادہ اہم چیز سوچنے کے لیے مہیا کی جائے۔ یعنی تکلیف کی صورت میں کوئی ایسا کام جو دماغ کے لیے نہایت اہم ہو، درد سے راحت کا ایک عمدہ راستہ ہو سکتا ہے۔